فروزاں رپورٹ
کسی کو غیرقانونی طور پر جانور قید کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔۔ جاوید مہر
جنگلی حیات کا مسکن نباتات، زمین اور اردگرد کا ایکوسسٹم ہوتا ہے۔ جنگلی حیات کے تحفظ کیلیے کار آمد اقدامات میں سر فہرست جنگلی پودے اور مسکن کو بچانا شامل ہے۔صوبہ سندھ کا مقامی جنگلی پودا ‘گگر’ جو کہ آئی یو سی این ریڈ ڈیٹا لسٹکے مطابق معدومیت کے خطرے سے دو چار ہوچکا ہے اور اہمیت کے لحاظ سے سائٹیز کنونشن کیفہرست دوئم میں شامل ہے۔
کارونجھر، کوھستان اور کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں قدرتی طور پر پایا جانے والا یہ پودا صوبہ سندھ کے حیاتیاتی تنوع کا اہم رکن ہے۔ اس پودے کے پتے سخت موسم میں گھاس کھانے والے جنگلی جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ اس نایاب پودے کی ٹہنی پر ظالمانہ طریقے سے تیز دھار چھری سے متعدد زخم لگا کر ‘”گوند“نکالی جاتی ہے جس کینتیجے میں کچھ عرصہ میں پودے کی موت واقع ہوجاتی ہے اور اس غیر قانونی سرگرمی کی وجہ سے ان علاقوں میں ان پودوں کا مسکن تیزی سے تباھی کی طرف گامزن ہے۔
مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ اس پودے سے حاصل شدہ گوند جعلی جی ڈی کے ذریعے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک ایکسپورٹ کی جاتی ہے۔ سائٹیز اپنڈکس ٹو میں شامل ہونے کی وجہ سے اور پاکستان ٹریڈ کنٹرول آف وائیلڈ فانا اینڈ فلورا ایکٹ کے تحت لاگو قوانین کے مطابق کسی بھی جنگلی پودے یا اس سیحاصل شدہ پروڈکٹ کو ایکسپورٹ کرنے کیے لیے اجازت نامہ درکارہوتا ہے اور مقامی و عالمی قوانین لاگو ہوتے ہیں اس لیے ایکسپورٹرز کی اس قسم کی حرکات بیرون ملک بدنامی کا سبب تھیں۔ پڑوسی ممالک میں ‘گگر سے گوند’ نکالنے پر پابندی کے باعث عالمی سمگلرز کا سارا دھیان پاکستان سے جعلی جی ڈی داخل کرکے ایکسپورٹ کی گئی گوند پر منتقل ہوچکاہے۔
اس حوالے سے حکومت سندھ کو سندھ ھائی کورٹ سے حاصل شدہ احکامات جن میں خشک و بارانی علاقوں میں جنگلی پودوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زرو دیا گیا، جس کی روشنی میں نایاب و معدومیت کا شکار جنگلی ‘گگر’ کو تحفظ یافتہ قرار دے کر اس سے غیر فطری و ظالمانہ طریقے سے گوند نکالنے اور غیرقانونی ایکسپورٹ پر پابندی عائد کردی گئیہے اور محکمہ کی جانب سے اس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کی ٹیم نے انسپیکٹر اعجاز، لال محمد اور مدن لال کی نگرانی میں کراچی میں پوچرز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جنگل سے پکڑے گئے 110 سے زائد پرندے جن میں اسٹارلنگ، بیا ویورز، کامن اسپیرو و دیگر پرندے شامل تھے ضبط کرنے کے بعد قدرتی ماحول میں آزاد کردیے۔ایک دوسری کارروائی میں کورنگی اتوار بازار سے براؤن روفڈ ٹرٹل کچھوؤں کے چار عدد جوینائل قبضے میں لے لیے گئے جن کو ھالیجی جھیل وائیلڈ لائیف سینکچوری میں آزاد کردیا گیا۔
اسی ٹیم نے نیو کراچی میں واقع قدیم قبرستان محمد شاھ میں خفیہ اطلاع پر کاروائی کی۔قبرستان میں موجود پرانے درختوں پر پرندوں کو پکڑنے کے لیے لگائے گئے متعدد پنجرے اتار لیے گئے۔ملزمان درختوں پر پنجرے فکس کرکے ان میں خوراک رکھ کر کئی سو فٹ لمبی رسیوں سے پنجروں کے دروازے کنٹرول کرتے اور پرندوں کے اندر جاتے ہی رسی کے ذریعے دروازے بند کرکے پرندوں کا شکار کرتے تھے۔اس حوالے سے انسپیکٹرر اعجاز نوندانی کا کہنا تھا کہشکاری ملزمان کی تلاش کے حوالے سے معلومات جمع کی جارہی ہیں،عوام بھی ان عناصر پر نظر رکھیں اور ایسی کسی غیر قانونی کارروائی کو دیکھتے ہی محکمہ کو رپورٹ کریں تاکہ قبرستان جیسی مقدس جگہ کا تقدس پامال نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں سے پرندوں کو پکڑنے کے غیر قانونی کام میں ملوث مکروہ کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کا کالا پل کے قریب گراونڈ میں چھاپہ۔ محکمہ کے سربراہ جاوید مہر نے بتایا کہ محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم نے اس کارروائی میں غیرقانونی طور پر قید 5 جانوروں کو بازیاب کرایاجن میں 2 بندر، 1 ہنی بیجر ایک عقاب ایک لومڑی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان جا نوروں کو میلے میں لاکر رکھا گیا تھا، میلے میں جھولوں اور جانوروں پر ٹکٹ لگایا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجرے میں موجود جانور پنجاب سے لائے گئے تھے،اس ضمن میں انھیں وائلڈ لائف قوانین کے مطابق پہلے وارننگ دی گئی تھی اور تین روز کے بعد ٹیم کی جانب سے کارروائی کی گئی، سربراہ وائلد لائف سندھ کا کہنا تھا کہ ان جانوروں کو چڑیا گھر کی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا، جاوید مہر نے کہا کہ کسی کو غیرقانونی طور پر جانور قید کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اورٹیم کی جانب سے مذید قانونی کارروائی کا عمل جاری رہے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہمیلہ سندھ حکومت کی اہم علاقائی شخصیت کی اجازت سے لگایا گیا تھا اور اہم شخصیت کے بھائی نے میلہ انتظامیہ کو اجازت دلوائی تھی۔
دوسری جانب محکمہ جنگلی حیات سندہ سکھر ڈویڑنننے ببرلو باء پاس سکھر کے قریب کاروائیک کرتے ہوئے کوھاٹ جانے والی مسافر بس سے 7 زندہ اور دو مردہ کونجیں برآمد کر لیں۔ ملزمان کے خلاف قوانین تحفظ جنگلی حیات سندھ 2020 کے تحت کرمنل کیس درج کر لیا گیا۔ یہ کونجیں بلوچستان سے کراچی لانے کہ بعد بذریعہ مسافر بس کوھاٹ منتقل کی جارہی تھیں۔ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف تحفظ جنگلی حیات قوانین کے مطابق کرمنل درج کیا گیا۔