رپورٹس

ایشیا موسمیاتی تبدیلی اور شدت سے بری طرح متاثر

ڈبلیو ایم او رپورٹ

دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی تمام اموات میں سے 47 فیصد ایشیا میں ہوئیں

اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے مطابق، گزشتہ سال سب سے زیادہ قدرتی آفات ایشیا میں آئیں، اور یہ براعظم عالمی اوسط کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ ڈبلیو ایم او کی 2023 میں ایشیا کی موسمی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے براعظم میں سال بھر کروڑوں افراد کو سیلابوں، طوفانوں اور گرمی کی لہروں سمیت شدید موسمی حالات کا سامنا رہا۔

پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں شدید بارشوں نے تباہی مچائی، جبکہ ہمالیہ اور ہندوکش کے علاقوں میں نمی کی مقدار معمول سے کم رہی۔ گلیشیئر تیز رفتار سے پگھلتے رہے، اور بحیرہ عرب سمیت ایشیا کے کئی سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے اجرا پر ڈبلیو ایم او کی سیکرٹری جنرل سیلیسٹ ساؤلو کا کہنا تھا کہ 2023 ایشیا کے کئی ممالک کے لیے اب تک کا گرم ترین سال تھا، اور موسمیاتی تبدیلی نے قدرتی آفات کے اثرات کو مزید شدید کر دیا۔

گرمی میں اضافہ، نمی میں کمی

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس ایشیا کے متعدد حصوں میں شدید گرمی پڑی۔ سال بھر زمین کی سطح کے قریب درجہ حرارت 1991 اور 2020 کے درمیان کے اوسط سے 0.91 ڈگری سیلسیئس زیادہ رہا، جو کہ اب تک کا دوسرا سب سے بڑا اضافہ تھا۔ مغربی سائبیریا سے وسطی ایشیا اور مشرقی چین سے جاپان تک اس کی شدت خاص طور پر زیادہ تھی۔ جاپان اور قازقستان کے لیے 2023 اب تک کا گرم ترین سال تھا۔

رپورٹ کے مطابق، توران کے نشیبی خطے (ترکمانستان، ازبکستان اور قازقستان)، ہندوکش (افغانستان، پاکستان) اور ہمالیہ کے بڑے حصوں میں نمی کا تناسب معمول سے کم رہا۔ دریائے گنگا کے قریب اور برہم پتر (انڈیا اور بنگلہ دیش) کے زیریں حصوں میں بھی یہی کیفیت دیکھنے کو ملی۔ میانمار میں کوہ آراکان اور دریائے میکانگ کے زیریں حصے میں بھی بارشیں معمول سے کم رہیں۔ جنوب مغربی چین میں خشک سالی دیکھی گئی جہاں سال کے تقریباً ہر مہینے میں نمی معمول سے کم رہی۔

اگرچہ مجموعی طور پر نمی کی کمی تھی، ایشیا کے کئی علاقوں میں شدید بارشیں بھی ہوئیں۔ مئی میں میانمار میں یہی صورتحال رہی، جبکہ جون اور جولائی میں انڈیا، پاکستان اور نیپال میں شدید بارشیں ہوئیں اور ستمبر میں ہانگ کانگ میں اب تک کی شدید ترین بارش ریکارڈ کی گئی۔

سطح سمندر میں اضافہ

1960 سے 1990 کی دہائی تک عالمی حدت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا، تاہم ایشیا میں یہ تیزی دوسرے خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ ان حالات میں معاشی نقصان اور انسانی زندگیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ گزشتہ سال ایشیا میں پانی سے متعلق 79 قدرتی آفات دیکھنے کو آئیں جن میں سے 80 فیصد سے زیادہ سیلابوں اور طوفانوں کا نتیجہ تھیں۔ ان واقعات میں 2,000 جانوں کا نقصان ہوا اور 90 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں گلیشیئرز، برفانی چوٹیوں اور برف کی تہوں کے پگھلنے سے سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایشیا میں یہ اضافہ عالمی اوسط سے زیادہ تیز ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال شمال مغربی بحر الکاہل میں سطح سمندر کی حدت اب تک کی بلند ترین سطح پر رہی، اور حتیٰ کہ بحر قطب شمالی میں بھی گرمی کی لہر کا مشاہدہ کیا گیا۔ بحیرہ عرب، جنوبی بحر کارا اور جنوب مشرق بحر لپٹیو سمیت ایشیا کے کئی سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت عالمی حدت کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رہا۔ بحر بارنٹس میں یہ کیفیت اور بھی شدید دیکھی گئی، جسے وہ پانی سمجھا جاتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

پگھلتے گلیشیئرز، معدوم ہوتی برف

قطب جنوبی اور شمالی کے بعد، دنیا میں سب سے زیادہ برف ایشیا کے بلند پہاڑی خطے میں پڑتی ہے جس کا مرکز تبت پلیٹو ہے۔ اس علاقے میں تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر گلیشیئرز پھیلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ گلیشیئرز تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں زیر مشاہدہ 22 گلیشیئرز میں سے 20 گلیشیئرز کی برف حدت میں اضافے کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے۔

قطب شمالی میں، فضائی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے صفر ڈگری سیلسیئس یا اس سے کم درجہ حرارت میں رہنے والی زمینی تہہ ختم ہو رہی ہے۔ یہ کیفیت قطبی یورال اور مغربی سائبیریا کے مغربی علاقوں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ برس گرد کے طوفان، آسمانی بجلی، شدید سردی اور کثیف سموگ کی لہریں بھی ان موسمی شدت کے واقعات میں شامل ہیں جو سال بھر ایشیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتے رہے۔

بروقت انتباہ کی ضرورت

ڈبلیو ایم او اور اس کے شراکت دار قدرتی آفات کے اثرات سے بچاؤ کے لیے بروقت آگاہی اور موثر نظام کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں تاکہ نہ صرف بہت سی جانیں بچائی جا سکیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث معاشی بحرانوں کو شدت اختیار کرنے سے بھی روکا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحر الکاہل (ایسکیپ) کی ایگزیکٹو سیکرٹری آرمیڈا سلیشیا علسجابانے کا کہنا تھا کہ بروقت آگاہی اور بہتر تیاری کے ذریعے کئی علاقوں میں قدرتی آفات کے دوران ہزاروں جانیں بچائی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسکیپ اور ڈبلیو ایم او موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرتے رہیں گے اور اس حوالے سے موثر پالیسیوں کے نفاذ کو تیز کریں گے۔ موسمی شدت کے واقعات سے بروقت آگاہی کو یقینی بنانا ان اقدامات کا حصہ ہے تاکہ بڑھتے موسمیاتی بحران میں ہر کسی کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 1970 سے 2021 تک ایشیا کو 3,612 مرتبہ شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں 984,263 اموات ہوئیں اور 1.4 ٹریلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ اس عرصے کے دوران دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی تمام اموات میں سے 47 فیصد ایشیا میں ہوئیں، اور منطقہ حارہ کے طوفان ان اموات کا سب سے بڑا سبب تھے۔

Leave a Comment