مضامین

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مالیات کی اہمیت

سعدیہ عبید خان

صوبائی اور وفاقی سطح پر ماحولیاتی مقاصد کے لیے براہ راست مختص فنڈ ابھی بھی محدود ہے

موسمیاتی بحران کے حوالے سے پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ موسمیاتی آفات کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ انسانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قدرتی آفات میں متاثرہ انسانوں کی بحالی، تباہ شدہ عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو ازسرنو کھڑا کرنا جو مستقبل میں محفوظ اور زیادہ پائیدار ہو، جنگلات کو دوبارہ لگانا اور تباہ شدہ ماحولیاتی نظام کو بحال کرنا، فصلوں کو متنوع بنانا تاکہ وہ بدلتی ہوئی آب و ہوا کے ساتھ بہتر طور پر موافقت کر سکیں۔ قدرتی آفات کو روکنے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے جدید حل تلاش اور انہیں اپنانے کی پالیسی تیار کرنا،ان سب کے لیے موسمیاتی مالیات کی اہمیت مسلم ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے واقعات جیسے ہیٹ ویو،خشک سالی، قحط، سیلاب،زلزلے اور لینڈ سلائڈ، اور گلیشیئروں کے پگھلنے کی وجہ سے ہمارا ملک اوسطا چار بلین امریکی ڈالر کا نقصان برداشت کرتا ہے جس کی بنیادی وجہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے عالمی اخراج میں اضافہ ہے۔۔ 2017 سے، کلایمٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے 10 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، حالانکہ عالمی اخراج میں اس کاایک فیصد سے بھی کم کا حصہ ہے۔

پاکستان خاص طور پر 2022 کے سیلاب اور میکرو اکنامک دباؤ میں اضافے کے بعد موسمیاتی مالیات کو بڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہے سن 2012 میں پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی بنائی گئی اور اس کا 2021میں دوبارہ جائزہ لیا۔وفاق کی جانب سے کلائمٹ ایڈاپٹیشن پلان بھی جاری ہو چکا ہے۔ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی 2022 میں منظور ہوئی لیکن کلائمٹ ایڈاپٹیشن پلان تاحال نہیں بنایا گیا۔

یہ پالیسی صوبے کے خشک موسمی حالات وضروریات کے مطابق بنائی گئی ہے اورکارکردگی کی پائیداری کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ ساحلی مسائل، جیسے مینگرووز، ماہی گیری اور سمندری پانی کے زرخیز زمین کو خراب کرنے جیسے مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے، جبکہ شدید مستقل گرمی بھی صوبے کے لیے ایک بڑھتا ھوا ممسئلہہے۔ سندھ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ اس کے پاس کاربن کریڈٹ پراجیکٹ پہلے ہی سے موجود ہے۔

کراچی کا کلائمٹ ایکشن پلان بھی بنایا جا رہاہے۔ اس کے لیے سول سوسائٹی یا عوامی نمائندوں یا محققین سے رابطہ نہیں کیا گیا بلکہ لا ہور کے ایک کنسلٹنٹ سے یہ کام لیا جا رہا ہے۔یہ بذات خود ایک بڑا تضاد ہے کہ لا ہور کا ایک کنسلٹنٹ کراچی کا ایکشن پلان بنائے۔زرایع کے مطابق یونیورسٹی کے اساتذہ سے مدد لی جا ر ہی ہے حالانکہ اس میں کلیدی کردار ان کام کرنے والوں کا ہونا چاہیے تھا جو گراؤنڈ پر کام کر رہے ہیں جیسا کہ بالخصوص ڈزاسٹر مینجمنٹ، رسک ریڈکشن اور کلائمٹ چینج اور مٹیگیشن اور ایڈاپٹیشن پر کام کرنے والے،این جی اوز اورمحققین کو اس میں شامل کرنا چاہیے تھا جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آ رہے۔

سندھ میں محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے تحت 20 اسکیموں کے لیے 1,200.00 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ ای پی اے کی ماحولیاتی نگرانی کے لیے 68.51 ملین اور روپے۔ سندھ کے قدرتی وسائل کے تحفظ اور تحفظ کے بارے میں آگاہی کے لیے 66.25 ملین روپے ہی رکھے گئے ہیں۔

زرایع کے مطابق صوبہ سندھ کے رواں مالی سال کے مجموعی ترقیاتی بجٹ 3 کھرب روپوں سے زائد میں سے صرف 40 کروڑ روپے محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کے لیے مختص کیے گئے تھے جو مجموعی بجٹ کا بمشکل اعشاریہ 12 فیصد بنتا ہے اور اس پر ستم یہ کہ مختص کردہ بجٹ کا بھی بمشکل 35 فیصد خرچ کیا گیا ہے جبکہ بقایا ضائع ہوکر اگلے سال کے لیے مزید کمی کی سفارش کا موجب بنے گا۔ترقیاتی بجٹ موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ، ماحولیاتی بہتری کے تیکنیکی منصوبوں اور ساحلی علاقوں کی ترقی پر خرچ ہونا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ مذکورہ ترقیاتی بجٹ کے موثر استعمال کے لیے بھرتی کی گئی افرادی قوت کے لیے جو ملازمتیں منظور شدہ ہیں ان میں سے صرف تیس فیصد پر بھرتی کی گئی ہے جبکہ مجموعی منظور شدہ ملازمتوں کی تنخواہوں اور الاؤنسز کے لیے جاری کردہ ایک ارب روپوں سے زائد میں سے ستر فیصد استعمال میں نہیں آرہے ہیں جبکہ جو 30 فیصد تنخواہوں کی مد میں جس افرادی قوت کو دئیے جارہے ہیں وہ بھی بمشکل تیس فیصد ترقیاتی کام کررہی ہے جبکہ باقی غیر ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے جو معمول کی نوعیت کی ماحولیاتی نگرانی، آلودگی کی روک تھام، موسمیاتی تبدیلی کی ضمن میں دستاویزی پھیلاؤ اور ساحلی علاقوں میں پہلے سے لگے منصوبوں کی دیکھ بھال ہے جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی بجٹ کی مختصی، خرچ اور استعمال کی صورت حال کم و بیش یکساں ہے البتہ پنجاب میں سرکاری کاموں کے طریقہ کار میں قدرے شفافیت ہونے کے باعث صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے البتہ خطے کے دیگر ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے تمام انتظامی یونٹوں کی ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے مالی انتظام کے حوالے سے کارکردگی بدترین ہے۔

اقوام متحدہ کے لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کی پہلی میٹنگ جسے ورلڈ بینک کی میزبانی میں منعقد کیا گیا تھا، اسے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہ کمیونٹیزکی مدد کے لیے اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے وقت پر اپنے اراکین کی تقرری میں ناکامی کی وجہ سے بورڈ اپنے پہلے اجلاس میں تین ماہ کی تاخیر کے بعد اب اپنے کام کی رفتار تیز کر رہا ہے اب تک 66 ملین یو ایس ڈالر کے وعدے کے ساتھ ابو ظہبی میٹنگ میں ہونے والی بات چیت نے ان تمام ممالک کے لیے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہیں کے لیے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی فنانس کی آمد بہت کم ہے، بین الاقوامی حمایت کے بغیر ان وعدوں پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

صوبائی اور وفاقی سطح پر ماحولیاتی مقاصد کے لیے براہ راست مختص فنڈ ابھی بھی محدود ہے۔ وفاق میں ماحولیات کا بجٹ بطور کل بجٹ کے اوسط کا ایک فیصد رکھا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں ایک فیصد سے کم اور خیبر پختون خواہ میں نصف فیصد ہے۔ موسمیاتی عوامل کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ صوبوں میں کی جانے والی اہم ترین اڈاپٹیشن اور مٹیگیشن اسکیمیں بھی اہم ہوتی جا رہی ہیں بہرحال صوبوں کے لیے مختص کیا جانے والا فنڈ موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے۔

Leave a Comment