تحریر: شبیر رخشانی
مزری کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا اثر پہاڑی علاقوں کے ماحول پر پڑ رہا ہے
حال ہی میں آرٹس کونسل کراچی میں ہونے والے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا، جہاں مختلف ہنر مند افراد کی تیار کردہ اشیاء کی نمائش کی جا رہی تھی۔ ایک اسٹال پر مزری سے بنے مختلف آئٹمز رکھے گئے تھے۔ اسٹال کی مالک نے بتایا کہ ان کی تنظیم خواتین کو ہنر سکھا کر ان کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس وقت وہ مزری سے مختلف اشیاء بنا کر فروخت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک آئیٹم ٹی کپ پیڈ تھا جس کی قیمت 150 روپے تھی، اور یہ بات چند سال پہلے کی ہے، ممکنہ طور پر اس کی قیمت اب بڑھ چکی ہو گی۔ جب میں نے پوچھا کہ مزری کہاں سے لاتے ہیں، تو جواب ملا کہ بلوچستان سے۔
مزری ایک قدرتی پودا ہے جو سنگلاخ وادیوں اور پہاڑی علاقوں میں اگتا ہے اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آواران کے علاقے کی جغرافیائی خصوصیات مزری کے پودے کی نشوونما کے لیے سازگار ہیں، مگر انسانی سرگرمیاں، تجاوزات اور موسمی تبدیلیوں نے اس کی افزائش کو متاثر کیا ہے۔ اس پودے سے وابستہ ایک محدود آبادی خاص طور پر خواتین، دستکاری کے ذریعے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے اس پر انحصار کرتی ہے۔
2009 میں، این آر ایس پی اور یو این ڈی پی کے تعاون سے آواران میں “سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پراجیکٹ” شروع کیا گیا، جس کا مقصد مزری کے جنگلات کی حفاظت، ماحولیاتی تحفظ اور اس شعبے سے وابستہ افراد کو ہنر مند بنا کر مارکیٹ میں لانا تھا۔ یہ ایک اہم منصوبہ تھا، مگر یہ محدود پیمانے پر رہا اور اس کا اثر پورے علاقے تک نہیں پہنچ سکا۔ اس منصوبے کو باقاعدہ پروگرام کی شکل دے کر اس کا روڈ میپ تیار کیا جانا چاہیے تھا تاکہ اس کے اثرات طویل عرصے تک قائم رہتے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
آج کل، خصوصاً جاھو میں، مزری کے جنگلات بے تحاشا کاٹے جا رہے ہیں۔ مزری کے پتے جمع کر کے انہیں کراچی کے رئیس گوٹھ میں بیچ دیا جاتا ہے۔ اگر ان پتوں سے مختلف مصنوعات تیار کی جاتی اور بیچی جاتیں، تو نہ صرف جنگلات کی کٹائی کو روکا جا سکتا تھا، بلکہ اس شعبے سے وابستہ افراد کو معاشی فائدہ بھی ہوتا۔
مزری کے پتوں کو خشک کر کے مارکیٹ لے جایا جاتا ہے۔ مزری کے کاروبار سے جڑے افراد کے مطابق، ایک ٹرک میں تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کے مزری کے پتے آ سکتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر میں اپنے علاقے میں گاڑیاں دیکھتا ہوں جو مزری کے پتوں سے لدی ہوتی ہیں، اور مجھے یہ سوچ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی زمین اور ماحول کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
کسی وقت مزری کے شعبے سے وابستہ ہنرمند بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یہ لوگ مزری سے مختلف آئٹمز تیار کرتے تھے، جن میں چٹائیاں، رسیاں، چپل، جائے نماز اور دیگر دستکاری کی اشیاء شامل تھیں۔ مزری کی چٹائیاں نہ صرف پائیدار ہوتی تھیں، بلکہ ماحول دوست بھی تھیں۔ مزری کے آئٹمز میں کھجور کی فصل کو پیک کرنے کی تکنیک بھی شامل تھی، جس سے کھجور دیر تک خراب نہیں ہوتی تھی۔ گوادری حلوہ بھی مزری کی پیکنگ میں محفوظ کیا جاتا تھا اور یہ کبھی خراب نہیں ہوتا۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ مزری کے شعبے میں جدت کی کمی نے اس کی اہمیت کم کر دی۔ روایتی طریقوں سے بننے والی مصنوعات مارکیٹ میں اپنی جگہ نہیں بنا سکیں۔ اس کے برعکس، دوسرے شعبوں میں مصنوعات کی تبدیلی اور جدت نے انہیں کامیاب بنایا۔ مثال کے طور پر، لائف بوائے صابن یا چپل کی مختلف ڈیزائنز، جو ہر سال مارکیٹ میں نئے انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔ مگر مزری کے شعبے میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، نہ ہی سرکاری یا نجی سطح پر اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔
مزری کے جنگلات کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مزری سے بننے والی مصنوعات کو مارکیٹ میں لایا جائے اور اس شعبے سے جڑے افراد کو معاشی طور پر مستحکم بنایا جائے۔ اس طرح نہ صرف جنگلات کی کٹائی کو روکا جا سکے گا، بلکہ مزری کے پودے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا جا سکے گا اور پہاڑی علاقوں کے ماحول کا تحفظ ممکن ہو سکے گا۔