رپورٹس

کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت: دنیا سرخ لکیر عبور کرنے جا رہی ہے؟

فروزاں رپورٹ

بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ سال 2024 اب تک کا گرم ترین سال ہونے جا رہا ہے، جس کی وجہ ماحولیاتی شدت اور گرین ہاوس گیسوں میں اضافہ ہے

کرۂ ارض کے تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات اور ان کی شدت بھیانک صورتحال اختیار کرتیچلی جا رہی ہے۔۔ کہیں گرمی ماضی کے ریکارڈ توڑتی نظر آ رہی ہے، کہیں شدید بارشوں اور سیلابوں نے تباہی مچا دی ہیتو کہیں خشک سالی رنگ دکھا رہی ہے کہ بوند بوند کو ترستی آبادیاں پانی کی تلاش میں دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہی ہیں۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے کرۂ ارض پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔عالمی سائنس دان کئی برسوں سے عالمی حکومتوں کو متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے لیکن عالمی پالیسی ساز اس ضمن میں تشویشناک حد تک بے حسی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

قوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمارے لیے اب نہ تو کہیں بھاگنے اور نہ ہی کہیں چھپنے کی جگہ باقی رہ گئی ہے۔مسلسل گرم ہوتی ہوئی زمین، انسان اور حیات کی تمام اقسام کے لیے مشکلات اور تباہی کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ گرمی کی لہریں دنیا بھر میں نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نتیجے میں اب پہلے سے زیادہ سمندری طوفان آ رہے ہیں اور ان کی شدت میں ہر آنے والے سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بارشوں اور سیلابوں کی تعداد اور شدت پہلے سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب دنیا کے کئی خطوں میں خشک سالی اور قحط کے دورانیے طویل ہو رہے ہیں، زیر زمین پانی خشک ہوتا جا رہا ہے۔ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے سمندروں کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے جو کئی ساحلی علاقوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔سائنس دانوں کے مطابق صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ معدنی ایندھن کا استعمال بڑھتا گیا۔ معدنی ایندھن کاربن گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ کارخانوں کی چمنیاں اور موٹرگاڑیوں کا دھواں مسلسل فضا میں کاربن گیسیں شامل کر رہا ہے اس کے علاوہ بڑے جانوروں کا فضلہ بھی کاربن گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں پراقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے دنیا بھر سے چوٹی کے 234 سائنس دانوں پر مشتمل پینل کی جانب سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق اس منظرنامے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا کو اس نہج پر لانے کے ذمہ دار خود حضرت انسان ہیں۔ کیونکہ ان کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آب و ہوا سے متعلق 2015 کی عالمی کانفرنس میں دنیا کے ملکوں نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ وہ عالمی درجہ حرارت کو 19 ویں صدی کے آخر کے درجہ حرارت سے، (جب صنعتی دور کی شروعات ہوئی تھی)، ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ (2 اعشاریہ 7 ڈگری فارن ہائیٹ) سے اوپر نہیں جانے دیں گے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کاربن گیسوں کا اخراج محدود کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔لیکن اس وقت دنیا کے درجہ حرارت میں صنعتی دور سے قبل کے مقابلے میں ایک اعشایہ ایک درجہ سینٹی گریڈ (2 ڈگری فارن ہائیٹ) تک اضافہ ہو چکا ہے۔سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو اگلے عشرے میں ہم ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کر لیں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ شدید گرمی کی لہر جو صنعتی دور سے پہلے 50 سال میں ایک بار آتی تھی، اب ہر دس سال کے بعد آ رہی ہے اور سرخ لکیر عبور کرنے کے بعد ہمیں ہر سات سال میں اس کا دو بار سامنا کرنا پڑے گا۔ جس سے خشک سالی، قحط اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھ جائیں گے۔ سمندری طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔

رپورٹ کے مصنفین میں شامل رٹز یونیورسٹی کے سائنس دان بوب کاپ کا کہنا ہے کہ گلیشیئر پگھلنے کی رفتار بڑھنے سے اس صدی کے نصف تک سمندر میں پانی کی سطح میں 6 سے 12 انچ تک اضافہ ہو جائے گا، جس سے کئی ساحلی علاقے زیر آب آجائیں گے یا ان کے ڈوبنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے سنمدر کے پانی میں جذب آکسیجن کی مقدار کم ہو جائے گی جس کا منفی اثر آبی حیات پر ہو گا۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے پلٹنے میں صدیاں بلکہ کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں۔یاد رہے کہتین ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ موسمیات سے متعلق دنیا کے 234 چوٹی کے سائنس دانوں نے مرتب کی تھی۔

لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن کے ایک تخمینہکے مطابق 2050 تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیز اضافہ ہو جائے گا، اس کے بعد ہر سال گرمی سے پانچ گنا زیادہ لوگ مریں گے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2030 اور 2050 کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ اضافی اموات متوقع ہیں۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کاسب سے زیادہ خطرہ بچوں، خواتین، بوڑھوں، تارکین وطن اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو ہوگا، جنہوں نے سب سے کم گرین ہاؤس گیسز خارج کی ہیں اور جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے، اس سے بھی زیادہ اور تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں آنے کی توقع ہے۔

ریڈ کراس، ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر، ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نیٹ ورک اور کلائمیٹ سینٹرل نامی غیر منافع بخش تحقیقی ادارے کی جانب سے جاری کی گئی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب شدید گرمی کے اوسطاً 26 دن مزید برداشت کیے گئے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرمی موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تحقیق میں گلوبل وارمنگ کے اثرات کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے 1991 سے 2020 تک کے عرصے کو بنیاد بنایا تاکہ ہر ملک کے لیے 10 فیصد درجہ حرارت کے حدود کا تعین کیا جا سکے۔ اس دوران 15 مئی 2024 تک گزشتہ 12 مہینوں کا جائزہ لیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس مدت میں درجہ حرارت کہاں زیادہ یا کم ہوا۔ سائنسدانوں نے اس دوران شدید گرمی کی لہروں کے اثرات کا تجزیہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ انسانی سرگرمیوں نے موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے بیشتر علاقوں میں اوسطاً 26 دن شدید گرمی کے بڑھ گئے۔ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال میں تقریباً 6.3 ارب افراد (جو عالمی آبادی کا 80 فیصد ہیں) نے کم از کم 31 شدید گرمی کے دنوں کا سامنا کیا۔ اس عرصے میں انٹارکٹیکا کو چھوڑ کر باقی تمام براعظموں میں 90 ممالک میں 76 شدید گرمی کی لہریں ریکارڈ کی گئیں، اور سب سے زیادہ متاثرہ پانچ ممالک لاطینی امریکہ میں تھے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں شدید گرمی کی لہریں لاکھوں بچوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، اور انہیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ 2024 اب تک کا سب سے گرم سال ثابت ہو سکتا ہے، جس کی وجہ موسمی شدت اور گرین ہاؤس گیسوں کا اضافہ ہے۔ یونیسیف کے مطابق، مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں 243 ملین سے زیادہ بچے مستقبل میں گرمی کی لہروں سے متاثر ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

عالمی ادارے کا مزید کہنا ہے کہ اس علاقے کے کئی ممالک پہلے ہی شدید گرمی کا شکار ہیں، جہاں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر کے تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے، اور آئندہ ہفتوں میں اس صورتحال میں مزید شدت متوقع ہے۔ یونیسیف کی علاقائی ڈائریکٹر، ڈیبرا کومانی نے خبردار کیا کہ شدید گرمی بچوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ جسم کے قدرتی کولنگ سسٹم کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلیوں اور شدید گرمی کے موسم سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں اور دیگر حساس گروپوں کی حفاظت کی جا سکے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2050 تک دنیا کے 2 ارب بچے گرمی کی لہروں کا سامنا کریں گے۔

Leave a Comment