فروزاں رپورٹ
پاکستان خصوصاً سندھ میں مون سون کی بارشوں کے ساتھ کئی شہروں کے درجہ حرارت میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے
ماحولیات کے عالمی دن 2024 کے موقع پر فروزاں، پی اے سی سی اور پاکستان یو ایس المنائیکے اشتراک سے تیسرے کراچی کلائمیٹ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا -اس پروگرام میں اکیڈمیا،وکلا،مختلف یونیورسٹیوں کے طلباوطالبات،سول سوسائٹی اور کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر اور معروف ماحولیاتی ماہر جاوید جبار نے کہا کہ ہم انسانوں کی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں دنیا تباہی کی طرف گامزن ہے، ہماری معیشت کے نزدیک ہر چیز گروتھ ہے حالانکہ گروتھ جب تک سماجی برابری اور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضے پورے نہ کرے تو معیشت میں محض اضافہ کرنا اور پیداوار بڑھانا درست ثابت نہیں ہوتا اور اب تک ثابت نہیں ہوا – انھوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس پر ہمارا ذاتی کنٹرول نہیں ہے اور یہ غلط فہمی ہے کہ انسانیت کی بقا فری مارکیٹ اکانومی میں ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ صوبہ سندھ نے گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں کئی ترقی پسند قوانین تشکیل دیے لیکن اس بہترین ریکارڈ کے باوجود صوبہ کی ماحولیاتی وزارت سال کا پورا بجٹ استعمال نہیں کر رہی ہے، ایک ایسی صورتحال میں جہاں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص کردہ بجٹ پہلے ہی بہت کم ہوتا ہے اگر اس کا بروقت استعمال بھی نہیں کیا جاتا تو یہ تشویش ناک صورتحال ہے جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سابق سینیٹر اور ماحولیاتی ماہر جاوید جبار نے کہا کہ ہم میں سے ایک ایک فرد اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا کر ماحولیاتی خطرات کو کم کر سکتا ہے – ہم یہ کر سکتے ہیں کہ گھر سے کپڑے کا شاپنگ بیگ لے کر جائیں اور پلاسٹک کو خیر باد کہہ دیں کیونکہ پلاسٹک اتنی تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے کہ آنے والے بیس تیس سالوں میں ہمارے سمندروں میں پلاسٹک زیادہ ہو گی اور مچھلیوں کی تعداد اس سے کم ہو گی ہم دنیا کو شاپر کی لعنت سے چھٹکارا دلانے میں اپنا انفرادی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم ذاتی زندگی میں بجلی کی بچت کر کے، ایندھن کا استعمال کم سے کم کر کے اور پانی کے بے دریغ استعمال سے پرہیز کرتے ہوئے دنیا کو اور اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو ماحولیاتی تحفظ دے سکتے ہیں۔
پروگرام میں ہو نے والی پینل ڈسکشن کے ماڈریٹر جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے معروف موسمیاتی ماہر اور مہکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے کہا کہ ہم درختوں اور جنگلات کو کاٹ کر شہر بسا کر رہے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ملتان میں آم کے بڑے باغات کو کاٹ کر تعمیرات کی گئی، ہم شہر کاری کے لیے درختوں کو ختم کر کے اپنی زمین کو تباہ کرتے جا رہے ہیں اور یہ عوامل ہمارے موسموں پر اثر انداز ہو رہے ہیں – ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کچھ اصول و ضوابط طے کرنا ہوں گے مثال کے طور پر اگر ہم کوئی سڑک تعمیر کرتے ہیں تو ہمیں کنٹریکٹر کو اس بات کا پابند کرنا ہو گا کہ وہ اس سڑک کے دونوں اطراف میں بڑی تعداد میں درخت لگائے اس طرح سے ہم ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ماحولیاتی بہتری لا سکتے ہیں لیکن ہم ترقی کے نام پر درختوں کو کاٹ رہے ہیں جس کے منفی اثرات ہمارے موسموں اور ماحول پر مرتب ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ کرہ ارض کے ماحولیات کو خراب کرنے میں سب سے زیادہ کردار فوسل فیول کا ہے جب کہ دوسرا کردار زمین کا ہے جس کو ہم انسان مختلف طریقوں سے مسلسل خراب کرتے چلے جا رہے ہیں، اگر ہم چاہیں تو اپنی زمین کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں -ڈاکٹر وقار احمد کے سوال کا جواب دیتے ہوئے موسمیاتی ماہر کا کہنا تھا کہ پاکستان خصوصاً سندھ میں مون سون کی بارشوں کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ کئی شہروں کا درجہ حرارت بھی تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے ان دونوں مظاہر میں اضافہ ہوتا ہوا نظر ارہا ہے – انھوں نے بتایا کہ ہماری ایک ہزار کلومیٹر کی ساحلی پٹی کو سائیکلون سے بہت زیادہ خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور اب یہ سائیکلون پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ شدت کے بن رہے ہیں – ان کا مزید کہنا تھا کہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق سمندروں کی سطح میں 4.4 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جب کہ سندھ کو سونامی کے خطرات بھی لاحق ہیں، اگر کوئی زلزلہ آتا ہے تو کراچی کے پاس 60/70 منٹ کا وقت ہو گا لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس کے لیے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ہیلتھ ایکسپرٹ محترمہ فرحانہ تبسم نے پینل ڈسکشن میں مختلف سوالوں کے جواب میں کہا کہ ماحول کو آلودہ کرنے میں ہماری ٹرانسپورٹ اور صنعتوں کا بہت بڑا کردار ہے ان سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیس ہمارے ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں – ان کا کہنا تھا کہ صبح کا وقت فضائی آلودگی کا پیک ٹائم ہوتا ہے جب بچے اور بڑے اپنے کاموں کے لیے باہر نکلتے ہیں اور آلودہ ماحول کے نتیجے میں سب کی صحت پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارا پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے جو ہمارے دماغ اور پھیپھڑوں سمیت جسم کے مختلف اعضاء کو متاثر کرتا ہے جب کہ اسکن کی بیماریوں کی وجہ بھی یہی الودگیاں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس کا سب سے زیادہ شکار بزرگ، بچے اور خواتین خاص طور پر حاملہ خواتین ہوتی ہیں – فرحانہ تبسم کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ماحول اور اپنی فضا کو درست کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا کیونکہ ہمارے پاس رہائش کے لیے کوئی دوسرا سیارہ موجود نہیں ہے – ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے گھر کشادہ ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعمیر میں زمین آسمان کا فرق اچکا ہے، اب کراچی میں بے ہنگم تعمیرات تیزی سے ہو رہی ہیں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر کئی کئی منزلہ گھر بن چکے ہیں، گلیاں انتہائی تنگ ہیں جہاں درختوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور ان تعمیرات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کے ڈی اے نے کئی برسوں سے کوئی رہائشی اسکیم جاری نہیں کی اس لیے لوگوں نے رہائش کا یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام موسمیاتی آفات کا نشانہ شہر کی یہی آبادیاں ہوتی ہیں ہمیں ان مسئلوں کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا ورنہ موسمیاتی المیے رونما ہوتے رہیں گے۔
سابق سیکریٹری فشریز وفارسٹ عبدالرحیم سومرو نے پینل ڈسکشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ صوبہ سندھ میں 27 لاکھ ایکڑ فارسٹ لینڈ ہے، ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 5 ہزار ایکڑ پر مینگروف کا کور ہے اور ہمارے مینگروف کے جنگلات دنیا میں 7 ویں نمبر پر ہیں جبکہ انڈس ڈیلٹا 5 ویں نمبر پر ہے، لیکن ہمارے جنگلات، فشریز اور زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ہمیں معاہدے کے مطابق پورا پانی نہیں مل رہا ہے کیونکہ جب تک ہم دریا کا پانی سمندر میں نہیں چھوڑیں گے اس وقت تک مینگروف کی گروتھ نہیں ہو گی اور سمندر میں میٹھا پانی شامل نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کی 32لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہو چکی ہے وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں ہمیں ان مسائل پر نظر رکھنا ہو گی اور ان مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانا ہو گی۔
پروگرام میں ویمن آرٹ حب کی جانب سے ماحولیاتی سونگ اور مدر ارتھ کی پرفارمنس پیش کی گئی جب کہ فروزاں کی جانب سے ماحولیاتی اسٹیج پلے ماحول دوست انسان دوست پیش کیا گیا -جب کہ کراچی وکیشنل ٹرینگ سینٹر کے اسپیشل بچوں نے میوزک پر قومی ترانہ پیش کیا پاکستان یو ایس المنائی کراچی چیپٹر کے صدر پروفیسر ڈاکٹر فرحان عیسی، فروزاں کے صدر محمود عالم خالد اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر مرزا اظہر علی بیگ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا – پروگرام کے اختتام پر شرکا میں اعزازی شیلڈ تقسیم کی گئی۔