تحریر: سعدیہ عبید خان
اب باغوں میں دیگر موسمی فصلوں اور کم وقت والی فصلوں سے کم منافع حاصل ہو رہا ہے اور موسمی اثرات زیادہ اثرانداز ہو رہے ہیں
ار ے کیا پکی پکی کیریاں ڈالے چلا جا رہا ہے۔۔۔۔کیا کروں خالہ۔۔۔ سبزی والے کی تیوریاں چڑھی ہوئیتھیں۔۔۔۔۔۔یہ سب ہیٹ ویو کی کارستانی ہے۔فصل کی ایسی تیسی ہو رہی ہے۔وقت سے پہلے ہی کیری پک گئی۔۔۔۔امی کی مسلسل بڑبڑاہٹ، میرے ذہن میں خطرے کی اس گھنٹی کو ٹنا ٹن ٹنا ٹن بجاےء جا رہی ہے۔
کلائمٹ ولنرایبل انڈیکس کے مطابق 2020 سے 2022 تک یعنی تین سالوں میں پاکستان موسم کے انتہائی شدید خطرات کا سامنا کرتا آیا ہے۔ اس انڈیکس میں پاکستان پانچویں نمبر پر تھا لیکن اب آٹھویں نمبر پر ہے۔اب بے وقت بارشیں، شدید گرج چمک،بجلی گرنے، ژالہ باری اور بے موسم برف فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا باعث بن رہی ہیں۔ مارچ 2024 میں پچھلے تین مہینوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ہم کسی نہ کسی طور پر موسمیاتی تغیر سے متاثر ہوئے ہیں۔ موسم کا پیٹرن بدل کر ایک ماہ آگے چلا گیا ہے۔ہیٹ ویو گلوبل کلائمٹ چینج اور جنگلات کی کٹائی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی اس بات کی ذمہ دار ہے۔ جس سے ہمیں اتنے شدید موسمی حالات کا سردیوں اور گرمیوں دونوں موسموں ہی میں سامنا ہے۔یورپی یونین کی موسمیاتی تبدیلی کی نگرانی کرنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ مسلسل گیارواں مہینہ ہے جس نے گرم ترین ہونے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جون 2023 سے اپریل 2024 تک ہر مہینے نے کرہ ارض پر گرم ترین رہنے کا ریکارڈ قائم کیا گزشتہ 12 ماہ کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 11.61 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ ہوا جو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
محکمہ موسمیات کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق کراچی کا مئی کے مہینے کا عمومی ٹمپریچر 35.8 ہوتا ہے ہم اسے 36 درجہ بھی کہہ سکتے ہیں۔اگر چالیس تک درجہ حرارت مسلسل رہے اور اس میں ہوا کی موجودگی کا عنصر کم۔ہو۔ جیسا کہ آج اور کل کے دن میں پہلے حصے میں ہوا بہت کم چلی تواس طرح بہت زیادہ حبس اور گھٹن ہو جاتی ہے،ایسی صورتحال میں ہم چار دن تک نہ چلنے والی ہوا اور اس طرح کی کنڈیشن کو ہیٹ ویو کہتے ہیں۔6مئی کا درجہ حرارت 36 سینٹی گریڈ تھا اور آج کا درجہ حرارت 37 تک ہے محکمہ موسمیات میں موسم کے درجہ حرارت کی رپورٹ شام پانچ بجے تک اتی ہے۔یہ مئی کے مہینے کا نارمل درجہ حرارت ہے تو ہم اسے ہیٹ ویو نہیں کہیں گے حالانکہ حبس زیادہ ہے اور گرمی بھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 50 فیصد نمی زیادہ ہے جو کہ مقابلتاً ہوا کم تھی اور گرمی زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔اس سے جسم کو محسوس ہونے والا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اصل درجہ حرارت دو تین درجے کم ہوتا ہے لیکن ہوا کی نمی کے تناسب کی وجہ سے جسم اسے دو تین درجے زیادہ محسوس کرتا ہے۔جیسا کہ آج کا محسوس کیا جانے والا درجہ حرارت 40 41 سے زیادہ بڑھ گیا ہوگا۔
2015کی ہیٹ ویو کے بارے میں محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق یہ آن ریکارڈ موجود تھا۔کراچی میں ہیٹ ویوآنے کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ایک تو ہم کراچی کے لب سمندر رہتے ہیں اسی سائیڈ پہ کوئی لو پریشر ڈیویلپ ہو جائے تو ڈپریشن بن جاتا ہے۔ہم نے کر اچی کے جنوب میں یہ ڈپریشن دیکھا تھا جو ایک ہفتہ تک جاری رہا۔اس کی وجہ سے سمندری ہوا ٹریپ ہو گئیں تھیں اور درجہء حرارت 44 سے اوپر چلا گیا تھا۔بہت زیادہ حبس دیکھا گیا جیسا کہ آج کل موجود ہے۔ اپریل کے آ خری ہفتے میں بھی سمندری ہوا بند تھی اور سمندر کے بجائے بلوچستان کے صحرائی علاقوں سے ہوا چل رہی تھی، ہیٹ انڈیکس بنانے کے لیے نمی کا تناسب،ہوا اور درجہ حرارت سب ہی ضروری ہیں۔ہیٹ انڈیکس وہ ہے جوآپ کے جسم کو زیادہ گرمی محسوس کرواتا ہے۔ اس وقت دو ہزار سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار گئیتھے جن میں بوڑھے اور بیمار سرفہرست تھے۔ماضی سے موازنہ کرتے ہوئے ذرا اس گرمی کا تو حساب لگا کر دیکھیں جو صرف ایک شہر میں چلتے ہوئے لاکھوں ائیر کنڈیشنرز اور دیگر ٹھندا کرنے والے آلات سے نکل کر شہروں کو مزید دوزخ بنارہی ہے دس بیس برس پہلے ان آلات کی تعداد اج کی نصف بھی نہیں تھی اور نتیجۃ گرمی بھی کئی درجے کم ہوا کرتی تھی۔
موسمیاتی تبدیلی اور زرعی پیداوار کا آپس میں بہت زیادہ تعلق ہے۔ اب یہ امر اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ گلوبل وارمنگ زراعت کو کئی طریقوں سے متاثر کرتی ہے، بشمول اوسط درجہ حرارت اور بارش میں تبدیلی۔ انتہائی موسمیاتی واقعات کی پیشین گوئی (مثلاً ہیٹ ویوو، سیلاب اور خشک سالی)، کیڑوں اور بیماریوں میں تبدیلیاں، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زمینی سطح پر اوزون کے ارتکاز میں اضافہ، اور خوراک کے غذائی معیار میں تبدیلیاں اس مسلے کی خرابیوں میں سے ہیں۔
پاکستان میں پورا بلوچستان اور پنجاب ایرڈزون میں آتا ہے یہاں پر فصلوں کو ہیٹ ویوز سے اور گرمی سے بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ دو سال قبل ہونے والی گرمی وسط مارچ سے وسط جون تک مکمل گرمی تھی اور اس سے جنوبی پنجاب اور سندھ میں آموں اور لیموں کی فصلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ گندم پکنے کے سیزن میں بتیس سینٹی گریڈ درجہ درکار ہوتا ہے۔بہت شدید موسم گندم کی بالی کو سنہرا کرنے کے بجائیخاکستر کر دیتی ہے۔
بہت سی تحقیقات کے مطابق پاکستان کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت فصلوں کی بوائی کو تبدیل کر دے گا اور یہ بھی امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ فصلوں کے اگنے کا امکان سرے سے ہی ختم ہو جائے۔ موسمیاتی تغیر گندم جوار چاول اور گنا کی فصل کے لیے انتہای شدید خطرہ ہے۔پودے کی نشونما کے لیے درجہ حرارت ایک اہم ترین فیکٹر ہے ہر پودے کی فصل کو مناسب ٹمپریچر درکار ہوتا ہے اس رینج کے اندر زیادہ ٹمپریچر عام طور پر پودے کو اگاتے ہیں جس میں پتوں کا بڑھنا اور تنے کا بڑھنا بھی شامل ہونا ہوتا ہے لیکن اگر اس رینج سے درجہ حرارت باہر چلا جائے تو پودوں کی نشونما متاثر ہو جاتی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سوات کے کاشتکاروں نے حال ہی میں نئیطریقہ زراعت استعمال کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ جن فصلوں کو متوازن خوراکی اجزاء میسر رہے وہ نسبتا کم مو سمی تغیر کا شکار بنے۔کاشت کار اب ایسی ورائیٹی کا انتخاب کر رہے ہیں جو موسم کے سرد گرم برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔ جن کا پھول بارش کی بوند سے ضائعنہ ہوں اور تر ہونے سے جو بیماریاں ہوتی ہیں ان کا مقابلہ کر سکے۔ یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ اب باغوں میں دیگر موسمی فصلوں اور کم وقت والی فصلوں سے کم منافع حاصل ہو رہا ہے اور موسمی اثرات زیادہ اثرانداز ہو رہے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں سے زیادہ زمینداروں کو مارکیٹ کی نئی جہتوں نے متاثر کیا ہے۔
لوئر سوات کے ایک ضلعی ڈائریکٹر زراعت توسیع نے بتایا کہ سوات باغات کی کھیتی کے لیے مشہور ہے اور زیادہ تر باغات بے ثمر ہیں یا اس سال نمایاں طور پر کم پھل لگے ہیں کیونکہ روزانہ زیادہ اور کم درجہ حرارت میں بڑے فرق اور گرم دسمبر کے بعد جنوری میں ٹھنڈا موسم ہوتا ہے۔ اس کی مزید بربادی شدید بارشوں سے ہوئی جس سے پھول گر گئے اور پھل باغات میں نہیں لگے۔ آڑو کے باغات اس سے بہت متاثر ہوئے۔شہد کی پیداوار پرموسمیاتی تبدیلی کا اچھا خاصا اثر پڑ اہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ شہد کی پیداوار اور کوالٹی پر گہرا اثر مرتب ہورہا ہے۔ درختوں کی کٹائی اوربے دریغ ادویات کا استعمال اس صنعت کو اور تباہ کررہاہے۔