سی اے سی خصوصی رپورٹ
یہ محض پانی کی قلت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ طویل مدت میں زمینی پانی کی مستقل قلت علاقے کے آبی ماحولی نظام کو ہلا کررکھ دے گی
تھر میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور پانی کے وسائل کی تباہی پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تھرسمیت دیگر علاقوں کی سول سوسائٹی، ماحولیاتی تعلیم کے ماہرین، ماحولیاتی کارکنان، ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کرکے ارباب اختیار خاص طور پر سندھ کے ارباب اختیار کو یہ پیغام پہنچایا کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے میں اگر عوام کے بجائے منافع کو ترجیح دی جائے گی تو ایسے منصوبے کا خواہ کتنا ہی قصیدہ پڑھا جاتا رہے مگر اُس منصوبے کے اطراف میں رہنے والے مقامی افراد اُسے ہر گز تسلیم نہیں کریں گے کیوں کہ وہ اگر زندہ رہے گا اور صحت مند رہے گا تو ہی کسی بھی منصوبے سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے۔
تھرکول کے منفی اثرات کا ناقص جائزہ نظام
اسی سوچ کے تحت اسلام کوٹ پریس کلب میں رکھی گئی کانفرنس کو تھر کلائمیٹ جسٹس ٹریبونل نامی تنظیم نے منعقد کیا جس میں تھر میں جاری کوئلے کی کان کنی کے دوران اختیار کیے جانے والے غیر محفوظ طریقوں اور پھر نکالے گئے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نظام سے علاقے کے محدود آبی وسائل پر تباہ کن اثرات اور تھر باسیوں کو اپنی ہی سرزمین پر ماحولیاتی ابتری کا شکار کردینے کے عمل کو انتہائی تشویشناک قرار دیا گیا اور اس بات پر تشویشکا اظہار کیا گیا کہ تھر کے محدود آبی وسائل پر کوئلے کی کان کنی اور بجلی سازی کے اثرات کا سائنسی جائزہ لینے کے نظام میں موجود خامیاں اصل صورتحال دکھا نہیں رہی ہیں اور ساتھ ہی سندھ حکومت اور تھر میں کام کرنے والی نجی کمپنیوں کے پانی کے گرتے معیار کو قابو کرنے میں ناکام ہونے پر بھی کانفرنس کے شرکاء و مقررین نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ مزید یہ کہ تھر میں کوئلے پر منحصر ترقیاتی سرگرمیوں کے علاقے کے ماحولیاتی نظام اور تھری عوام کی صحت اور فلاح و بہبود پر پڑنے والے منفی اثرات بھی کانفرنس میں موضوع بحث رہے۔
تھری باسی دہری مصیبت کا شکار
کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پر بھی گہری تشویشکا اظہار کیا کہ تھر میں کوئلے کی کان کنی کے غیر محفوظ طریقوں کی وجہ سے ایک طرف تو زیر زمین پانی اپنی سطح سے کہیں نیچے جاتا جارہا ہے اور دوسری طرف غیر محفوظ کان کنی کی سرگرمیوں سے کوئلہ زدہ پانی بہت زیادہ تعداد میں نکل رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادیاں دو طرح سے مصیبت میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف تو زیر زمین پانی کی سطح نیچے جانے کے باعث وہ پانی کی قلت کا شکار ہیں اورپانی پر منحصر اپنی تمام ضروریا ت اچھی طرح سے پوری کرنے سے قاصر ہیں اور یہ اب محض پانی کی قلت کا مسئلہ ہی نہیں رہا ہے بلکہ طویل مدت میں زمینی پانی کی مستقل قلت علاقے کے آبی ماحولی نظام کو ہلا کررکھ دے گی جس کا نتیجہ ہمیں مزید موسمیاتی آفات کے ساتھ ساتھ خطے کے آب و ہوا کے مجموعی مزاج میں تبدیلی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا اور ایک صحرائی علاقے کو ایسی صورتحال سوکھے کے موسم میں مستقل مبتلا کرسکتی ہیں جہاں زندگی کا تسلسل مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
غیر معمولی موسمیاتی صورتحال کا خدشہ
کانفرنس کے مندوبین نے اس بات پر بھی فکرمندی کا اظہار کیا کہ کوئلے کی کان کنی کے دوران بڑی مقدار میں کوئلہ زدہ پانی علاقے کے آبی ماحولی نظام کو آلودہ کررہا ہے اور زمینی پانی جو پہلے ہی کم مقدار میں ہے اُس میں اگر بڑی مقدار میں کوئلہ زدہ پانی شامل ہوتا رہا تو زمینی آبی نظام میں مختلف آبی آلودگی کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ جائے گا جو آگے چل کر علاقے کے مجموعی ماحولیاتینظام کے لیے بھی بہت بڑی تباہی لائے گا کیونکہ کسی بھی خطے کی آب و ہوا میں سے کوئی ایک عنصر بھی اپنی قدرتی شکل سے کہیں زیادہ خراب ہوجائے تو وہاں غیر معمولی موسمیاتی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے جو کہ دنیا میں جاری عمومی ماحولیاتی تبدیلی سے بھی کہیں زیادہ سنگین ثابت ہوسکتی ہے۔
گورانو، ڈوکار چاؤ اور میگاہ جو تھرکی آبی تباہی
شرکاء میں موجود مقامی ماہرین کے مطابق کوئلے کی کان کنی کے نتیجے میں نکلنے والے کوئلہ زدہ پانی کی گورانو اور ڈوکار چاؤ نامی دیہاتوں کی آب گاہوں میں اور میگاہ جو تھر نامی علاقے میں کوئلہ زدہ پانی کی ذخیرہ گا ہ میں منتقلی زمینی پانی کی کوالٹی بری طرح متاثر کررہی ہے جس کی وجہ سے قرب و جوار کے علاقوں کے زمینی اور نباتاتی ماحول کو سخت نقصان ہورہا ہے۔
بارہ کنووں کا پانی آلودگی کا شکار
کانفرنس میں اس بات کو پھر سے دہرایا گیا کہ گورانو میں کوئلہ زدہ پانی کی منتقلی کے باعث زمینی پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث آس پاس کے بارہ کنووں کا پانی بھی آلودہ ہوتا جارہا ہے کیونکہ زمینی پانی کی سطح بلند ہونے کے دباؤ کے باعث وہ کنووں میں بھی چلاجاتا ہے اور اُن کنووں کے پانی سے فیض یاب ہونے والے تھری عوام اب تھر کول کے منفی اثرات کی سزا آلودہ پانی پی کر بھگت رہے ہیں۔ اسی لیے دیکھا گیا ہے کہ جب سے گورانو کا تالاب بنایا گیا ہے تب سے وہاں کے مکین آلودہ زمینی پانی پینے کی وجہ سے ملیریا اور آبی آلودگی سے ہونے والی دیگر بیماریوں کا بڑی تعداد میں شکار ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل بھی اسی مسئلے پر ارباب اختیار کو دہائی دینے کے لیے تھر کے عوام نے گورانوتالاب کے کنارے انسانی زنجیر بنا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
آلودہ پانی سے چائے بناناہوئی مشکل
کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ گورانو تالاب میں موجود کوئلہ زدہ پانی زمینی پانی میں شامل ہوکر آس پاس کے کنووں کے پانی میں اس قدر شامل ہوچکا ہے کہ مقامی افراد اپنے کنووں کے پانی سے چائے تک نہیں بناسکتے ہیں کیونکہ اُس میں آلودگی کنندگان(پالیوٹینٹس) کی مقدار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ چائے کی پتی اپنا عرق پانی میں چھوڑنے سے قاصر ہوتی ہے۔
آلودہ پانی سے کپڑوں کی دھلائی
کوئلہ زدہ پانی سے وہ اپنے کپڑے تو دھورہے ہیں مگر کپڑوں کی مضبوطی بھی مستقل آلودہ پانی کے اثرات جھیلنے کے باعث کم ہوتی جارہی ہے اور زیادہ عرصے تک قابل استعمال کپڑے جلد ہی کسی کام کے نہیں رہتے ہیں۔ ڈوکار چاؤ کے علاقے میں چھ دیہاتوں کے عوام بھی ایسے ہی کوئلہ زدہ پانی کے اثرات بھگتنے پر مجبور ہیں اور ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں جن کا شکار گورانو تالاب کے آس پاس رہنے والے ہیں۔
تھر کول کے علاقے میں پھیلتے ہوئے اثرات
کانفرنس میں شریک علاقے کے عوام نے شرکاء کو بتایا کہ زمینی پانی کی آلودگی محض اُن ذخیرہ گاہوں کے آس پاس تک ہی محدود نہیں ہیں جہاں کوئلہ زدہ پانی چھوڑا جارہا ہے بلکہ جب بھی کوئلے کی کانوں سے آلودہ پانی زیادہ مقدار میں نکلتا ہے تو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں بڑے بے ڈھنگے طریقوں سے وہ پانی بلاک ون میں تل وائیو اور ورائی اور بلاک ٹو کے بترا اور جامن سموں کے علاقوں میں بھی چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں بہت سے مال مویشی ہلاک، فصلیں تباہ اور املاک بھی متاثر ہوئی ہیں۔
تھرکول کمپنیاں حقیقت سے انکاری
تھر کے عوام اور وہاں کے ماحولیاتی نظام پر کوئلہ زدہ پانی کے سنگین اثرات کے بہت سارے شواہد ہونے کے باوجود تھر کول کی کمپنیاں مسئلے پرکوئی دھیان دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور علاقے کے لوگوں کی اپنی مصیبتوں کے اظہار کی آواز دبانے اور شواہد جھٹلانے میں مصروف ہیں جو کہ اُن کی ماحول دشمن سرگرمیوں سے علاقے کے لوگوں اور وہاں کے ماحولیاتی نظام کو ہونے والے نقصانات کی غیر جانبدارنہ جانچ پڑتا ل اور صورتحال کی سنگینی کم کرنے میں ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کے اثرات کی جانچ کرنے کا طریقہ کار یکطرفہ اور من مانا ہے جس میں شفافیت کا فقدان ہے۔
کانفرنس کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ
۔۔۔ٌٌتھر کے آبی اور ماحولیاتی وسائل پر کوئلے کے بجلی گھروں اور کوئلے کی کان کنی سے ہونے والے اثرات کی نوعیت، شدت اور کثرت کا جائزہ لینے کے لیے اور موجودہ جائزہ نظام میں موجود خامیوں کی جانچ کرنے اورمطلوبہ نظام کے تقاضوں کا پتہ چلانے کے لیے حکومت سندھ صوبائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے تحت ایک آبی کمیشن بنائے۔
تھر میں کوئلے کے بجلی گھروں اور کان کنی کے مقامی ماحول اور آباد یوں پر اثرات کا جائزہ لینے والے موجودہ من مانے، یکطرفہ اور بلا شرکت غیرے نظام کی بجائے عوامی شراکت کے ساتھ شفاف نظام قائم کیا جائے۔
مقامی آبادیوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر تھرکول کا منصوبہ چلانے والے اپنے منصوبوں کے باعث علاقے میں شدید ہوتے آبی بحران کی روک تھام کے لیے ایک منصوبہ بنائیں اور اُسے چلائیں۔