فروزاں رپورٹ
زمین جس ماحولیاتی بحران کی زد میں ہے اس بحران کی خبروں کو چھپایا جارہا ہے وہ عوام کے سامنے لائیں اور بتائیں کہ ہو کیا رہا ہے
پروفیشنلزآف تحریک بیداری کراچی کی جانب سے لیاقت نیشنل لائبریری کے ابراہیم جویو آڈیٹوریم میں ما حولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں سے کرۂ ارض کے زمینی ماحول کی تباہی کے موضوع پر کانفرس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ماحولیات دوست محمد راہموں تھے جب کہ صدارت تنظیم کے سربراہ معروف عالم دین علامہ سید جواد نقوی نے کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ ہماری زمین موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں شدید بحران کی لپیٹ میں آچکی ہے یہ ایسا بحران ہے جو ہماری زمین کو ختم کرتا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صنعتی ترقی نے زمین کے ماحول کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور انھیں اس بات کا علم تھا کے زمین کے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن ان بین ا لااقوامی کمپنیوں نے جن کا سیاست کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے نے عوام کے سامنے اصل صورتحال آنے ہی نہیں دی۔
علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ 1970 اور اس کے بعد کی جانے والی عالمی کانفرنس میں زمین کو لاحق ہونے والے خطرات کا ذکر کیا گیا لیکن ان میں بھی دنیا کو کنٹرولڈ بیانیہسے آگاہ کیا جاتا ہے،یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس قسم کی عالمی کانفرنسوں میں سائنس دانوں یا ماحولیاتی ماہرین کے بجائے سیاست دانوں کی اکثریت ہو تی ہے جو سرمایہ داروں کی حفاظت کے لیے حکومتوں میں آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2015میں فرانس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پیرس معاہدہ جیسا ایک دکھاوے کا بیانیہ دنیا کو دیا گیا جس پر آج تک عمل نہیں ہو سکا،پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات زیادہ نمایاں نہیں تھے لیکن اب کرۂ ارض کا ہر باشندہ اس خطرے اور بحران کو محسوس کر رہا ہے کیوں کہ تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت،طوفان، سیلاب، شدید بارشیں اوراس جیسے دیگر مظاہرکے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں سے کرۂ ارض کا ہر فرد متاثر ہونے لگا ہے۔
تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ اس ضمن میں جو تحقیقات اور اسٹڈیز ہو رہی ہیں اس کے نتائج بہت ہی خوفناک ہیں اور میڈیا،مطبوعات اور تحقیق دان ان نتائج کو منظر عام پر نہیں لا رہے ہیں اور اب تو ہر گھنٹے کے حساب سے ہماری زمین جس ماحولیاتی بحران میں دھنستی جا رہی ہے وہ ہم سب کے لیے انتہائی تشویشناک صورتحال ہے،ہماری قطبی برف کی چادریں انتہائی تیزی سے پگھلتی جا رہی ہیں جو ہماری حیات کا منبہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ دنیا کے بعض ادیان ہمارے مسلک اور سلسلے سے بہت آگے ہیں ان کے ہاں کسی جاندار کو مارا نہیں جا سکتا، ان کے ہاں لوگوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ گوشت نہیں کھا سکتے،کسی قسم کا کوئی پودا نہیں کاٹ سکتے،یہ کئی مذاہب کی تعلیم ہے لیکن اسلام میں بلکل ممانعت نہیں ہے بلکہ ایک ڈسپلن بنایا گیا ہے کہ زمین کے ماحول سے فائدہ اٹھا سکتے ہو لیکن ہم زمین پر ماحولیاتی فساد پرپا کر رہے ہیں اور اس فساد نے کرۂ ارض کی پوری زمین اورسمندر کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے بتایاکہ جب کویت کی جنگ ہوئی تو کویتیوں نے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دی تھی وہ سارا تیل بہہ کر سمندر میں چلا گیا تھا جو آج تک نہیں نکالا جا سکا اس کے اعدادو شمار انتہائی خوفناک ہیں،سمندری حیات کا بے دریغ شکار کیا جا رہا ہے اور سرمائے کی ہوس میں انسان کی بنیادی حیات کو بے دردی سے تباہ کیا جا رہا ہے اگر ہمارے سمندر کا سروے کرایا جائے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے سمندر میں کتنا کچرا جا چکا ہے،ندی نالوں کا گندہ پانی،ساری پلاسٹک،صنعتی اداروں کا کیمیکل ملا پانی اور اس کے ساتھ ایٹمی فضلہ بھی سمندر میں پھینکا جا رہا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہوتا جب کہ گڈانی میں جو پرانے جہاز توڑے جاتے ہیں وہ خطرناک کچرے سے بھرے ہوتے ہیں اور کئی مرتبہ وہاں متعدد مزدوروں کی اموات رپورٹ ہو چکی ہیں، زمین کو تباہ کرنے کا سارا فساد ہم انسانوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے،اب بات یہ ہو رہی ہے کہ اگر اس فساد کو نہ روکا گیا تو زمین ختم ہو جائے گی۔
علامہ سید جواد نقوی نے بتا یا کہ ایک تحقیق کے مطابق 2050میں لاہور شہر کا درجہ حرارت اتنا بڑھ جائے گا کہ وہاں کسی بھی جاندار کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی،اس شہر کا درجہ حرارت ناقابل برداشت ہو جائے گا جو دریاؤں اور ہریالی کا شہر ہے باقی جو خشک علاقے ہیں وہاں صورتحال کتنی خوفناک ہو سکتی ہے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں،اس حوالے سے جو تحقیقات موجود ہیں وہ عوام کے سامنے نہیں لائی جاتی ہیں۔جس ماحولیاتی بحران نے ہمارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس میں ہمارا حصہ نہایت قلیل ہے اور اس ضمن میں امریکہ،چین، بھارت اور یورپ سمیت بڑے ممالک جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس ماحولیاتی فساد کے ذمہ دار ہیں۔انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے آسمان پر جو فلٹر لگائے وہ سب ناکارہ ہو چکے ہیں جن میں سے ایک اوزون کی تہہ ہے وہ شعاعیں جو زمین پر فلٹر ہو کے آتی تھیں وہہم انسانوں کی وجہ سے ناکارہ ہوتی جا رہی ہیں اور ہماری رہائشگاہ زمین تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گلیشئر پگھل رہے ہیں،قطبی برف کی چادریں ختم ہو رہی ہیں، سمندروں کی سطح میں اضافہ ہو رہا ہے زمین پر پینے کا ضاف پانی ختم ہوتا جا رہا ہے،شدید بارشیں اور سیلاب اور یہ سب تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ ہم سب اس فساد کے ذمہ دار ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ یورپ میں کافی عرصہ پہلے اس معاملے پرگرین پیس نامی تنظیم نے بہت شور مچا تھا کیوں کی انھیں اندازہ تھا کہ یہ زمین تباہی کا شکار ہونے جا رہی ہے لیکن اب کافی عرصہ سے وہ تنظیم خاموش ہے انھیں بزور طاقت دبا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ہر معاملے میں بے حس ہو چکے ہیں،اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر زمین پر ہونے والے ماحولیاتی فساد کے خلاف آوازاٹھائیں اور ان عوامل کی نشاندہی کریں کہ یہ فسادپھیل کہاں سے رہا ہے اور اس کی بنیاد ہے سرمایہ داری کی ہرص و لالچ،اگر دنیا کے یہ امیر ترین ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہماری زمین کی ساری معدنیات،ساری گیس، پیٹرول اور سونا نکال لیں گے تو آنے والی نسل کیا کرے گی یہ زمین پوری انسانیت کی امانت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنی اور آنے والی نسلوں کی بقا چاہتے ہیں تو ہمیں ماحولیاتی آگہی کو فروغ دینا ہو گا تا کہ لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہو کر اس فساد کو روکیں نہ کہ سن کر اپنے کاموں پر لگ جائیں اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس فساد کے نتیجے میں مومنین و صالحین سب کی زندگی خطرے میں ہے، ہمیں بولنا ہو گا کیوں کہ اس کشتی میں سوراخ کیا جا رہا ہے جس میں ہم سب سوار ہیں اور سوراخ کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم تو اپنی سیٹ کے نیچے سوراخ کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے نبی اپنے جنگجوؤں کو کہتے تھے کہ جب مخالفین کے علاقوں میں جاؤ تو پودے نہیں کاٹنا،جانوروں کو نہیں مارنا،کھیتوں کو نہیں اجاڑنایہ آداب تھے کہ زمین کو محفوظ رکھنا ہے۔
ہم سب کا فرض ہے کہ زمین جس ماحولیاتی بحران کی زد میں ہے اور میڈیا اس بحران کی خبریں چھپا رہا ہے تو ہم ان سب کو نکال کر عوام کے سامنے لائیں اور انہیں بتائیں کہ ہو کیا رہا ہے،ہمیں ان حقائق کو منظر عام پر لانا ہو گا تا کہ عوام بیدار ہوں،تحقیق داں،مذہبی رہنما اس حوالے سے عوام کو آگاہ کریں تا کہ عوام کے سامنے وہ اسباب آ سکیں اور وہ ان اسباب کو روکنے میں اپنا کردار اد اکر سکیں کیونکہجس طرح دنیا کادرجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے یہ وارننگ ہے ہم سب کے لیے کہ اگر نہیں جاگے تو سب مر جاؤ گے۔ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے یہ بھی پوچھنا ہے کہ تم نے زمین کا حق ادا کیا یا نہیں،ہمیں زمیں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھا نا ہو گی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر زمینچھوڑ کے جانا ہو گا۔
کانفرنس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ماحولیات دوست محمد راہموں نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اب ہمارے گھروں میں داخل ہو چکے ہیں،پورا پاکستان اس کی زد میں ہے خا ص طور پر ہمارا صوبہ اس سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ 2022 کے بد ترین سیلاب نے پاکستان اور خصوصی طور پر صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ متاثر کیا،صوبہ کی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو کاربن کا سب سے زیادہ خراج کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن ہم ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں میں سر فہرست ہیں،صوبہ سندھ کی حکومت مختلف حکمت عملیاں اپنا کر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹ رہی ہے لیکن اس سلسلے میں ہمیں عوام کی بھر پور شرکت بھی درکار ہے کیوں کہ عوامی شرکت کے بغیر ہم ماحولیاتی مسائل سے نہیں نمٹ سکتے۔
تقریب سے مہکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز،پروفیسر سرفراز کوریجو،پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی،ڈاکٹر اصغر دشتی، محمود عالم خالد،محمد نعمان سہگل،عبدلجبار مزاری،فائق سلیم سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔