فرحانہ تبسم (منیجرریسرچ آغاخان یونیورسٹی)
موسمیاتی تبدیلیاں انتہائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں جس کا سبب دھول، دھواں، مٹی گرد و غبار، خطرناک گیسز، گاڑیوں کا دھواں، فیکٹریاں، ریفائینرز، ایندھن وغیرہ ہیں۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر مختلف ممالک خصوصاً ایشیائی ممالک انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں۔یہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے خطے پر بہت اثر انداز ہو رہی ہیں اورگلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس 2021 کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔1980 سے 2007 کی دہائیوں میں پاکستان میں نمایاں طور پر گرمی کی شدت، حدت اور اس کے دورانیئے میں واضح فرق دیکھا گیا ہے۔
نقشہ
پاکستان پہلے ہی اقتصادی اور معاشی طور پر بحران کا شکار ہے اوریہاں صحت کی سہولیات بھی ناقص ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او)کے مطابق حمل کے دوران ماؤں کا طبی معائنہ کم از کم چار مرتبہ ہونا چاہئیے۔پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح صرف 51.4%ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح کم ہو کر 41.7% ہی رہ جاتی ہے۔ تاہم بچوں کی پیدائش کی بات کی جائے تو ہسپتال میں طبی ماہرین کے ذریعے پیدائش کی شرح 66.2%ہے اور دیہی علاقوں میں یہ شرح کم ہو کر 59.2% ہی رہ جاتی-جس کی وجہ سے پا کستان میں 2017 میں زچگی کی شرح اموات (ایم ایم آر)ایک لاکھ زندہ پیدائشوں میں 140 تھیں، جبکہ یہ اعدادوشمار بڑھ کر 2019میں ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 186ہو گئیں جو کہ 32 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ شرح دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان نمایاں طور پر مختلف ہیں، شہری علاقوں میں ایک لاکھ زندہ پیدائشوں میں 158 جبکہ دیہی علاقوں میں میں ایک لاکھ پر 199 شرح اموات ہیں۔ان حالات میں موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے ملک میں مزید مسائل پیدا کرتی ہیں۔ جب ہم موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ حاملہ خواتین کے تناظر میں لیتے ہیں تو ہمارے سامنے مزید تشوش ناک صورت حال سامنے آتی ہے اور کئی سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مزیدبراں ہمارے ملک میں عورتیں پہلے ہی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کومدِنظر رکھتے ہوئے نجی اور سرکاری اداروں کی طرف سے فوڈ سپلیمنٹ غذائی قلت کی کمی کوپوراکرنے کے لیئے ماؤں کو حمل کو دوران دئیے جاتے ہیں تاکہ انکو حمل کی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے مگریہ ناکافی ہیں۔ اُن تمام حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے وسیع نظر ہوکر حاملہ خواتین کو موسمیاتی تبدیلیوں خصوصاً پاکستان کو وہ علاقے جہاں گرمی کی شدت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ان مسائل کے سدِباب کیلئے مؤثرپالیسیاں بنانے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ گرم ہوائیں، گرمی کی حدت انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرتی ہیں۔ خصوصاً حاملہ خواتین اور انکے ہونے والے بچے کے لئے انتہائی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ بہت سیتحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ شدید گرمی حاملہ خواتین میں مختلف مسائل پیدا کرتی ہے جیسے کہ قبل از وقت بچے کی پیدائش، مردہ بچے کی پیدا ئش، اسقاطِ حمل، زچگی کے دوران ماؤں کی اموات، بچہ دانی میں خون اور اکسیجن کی سپلائی متاثر ہونا۔
ہمارے دیہاتوں میں رہنے والی خواتین نہ صرف غذائی قلت کا شکار ہیں بلکہ شدید گرمی میں گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ کھیتوں پر کام کرنا بھی انکی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ان کھیتوں پر کسی قسم کی کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں مثلاً پانی، گرمی سے بچاؤ یاکچھ دیر آرام کرنے کیلئے شیڈز، او- ار-ایس، چھتری، کیپ وغیرہ اور اگر کسی کو ہیٹ اسٹروک ہوجائے تو ہسپتالوں کی بھی خاطر خواہ سہولیا ت میسر نہیں۔ان تمام مسائل اور پیچیدگیوں کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف حکومت ِپاکستان کو پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ تخمینہ لگانے کی ابھی اشد ضرورت ہے کہ ذچہ و بچہ کی صحت پر شدید گرمی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس حمل کی پیچیدگیوں کے جو اعدادو شمار موجود ہیں وہ تمام تحقیقات ہائی انکم کنٹریز میں کی گئی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
ہمارے ملک میں نجی اور سرکاری اداروں کو عالمی ادارہ صحت اور دیگر اداروں کے اشتراک سے زچہ و بچہ کی صحت پر تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ یہ جانا جا سکے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید گرمی کا اثر بچے اور ماؤں کی صحت پر کس طرح پڑرہا ہیتاکہ اس حوالے سے رسک فیکٹر کا تخمینہ لگایا جاسکے اور ان شواہد کی روشنی میں اداروں کے اشتراک سے زچہ و بچہ کی صحت پر تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر پالیساں مرتب کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنایا جاسکے۔ کیونکہ ماں سے زندگی اور صحت مند بچے سے ہے مستقبل۔