مضامین

موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ افراد باہم معذوری

تحریر: شائرین رانا

            گرمی کے موسم میں بیماری شدت پکڑ لیتی ہے اور افراد باہم معذوری اپنی تکلیف بیان نہ کرسکنے کے باعث زیادہ تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں

بیٹی ایساپرمسرت لفظ بے کہ ساختہ لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے لیکن خدانخواستہ بیٹی کسی بھی معذوری کا شکار ہوجائے تو والدین کو دنیا اندھیر محسوس ہوتی ہے مگر ایسے میں والدین ہی ہیں جو ثابت قدمی سے اپنے دکھ کو نہاں خانوں میں چھپا کر لخت جگر کو سنبھالنے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔کچھ ایسے ہی مناظر مظفر گڑھ کی دور افتادہ یونین کونسل مراد آباد”بستی لکڑو والا کھو“میں دیکھنے کو ملے کہ جہاں 35 سالہ شکیلہ کو باپ اپنے ناتواں بازوؤں پر اٹھائے ہوئے چڑھائی چڑھ رہاہے کہ مہر اللہ وسایا کی بیٹی شکیلہ پیدائشی طور پر جسمانی و ذہنی طورپر معذوری کا شکار ہے۔ شکیلہ کی ماں وفات پاچکی ہے جبکہ بڑی بہن شادی شدہ اور بھائی چھوٹے اور گاؤں میں ہی مزدوری کرتے ہیں۔ ستر سالہ والد مہر اللہ وسایاہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ حال ہی میں شکیلہ کو ٹی بی ایسے مرض کی بھی تشخیص ہوئی ہے جبکہ وہ معذوری میں پہلے ہی مختلف امراض کو جھیل رہی ہے۔

 ایسے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ایسے افراد پراثر انداز ہونے کی بات کی جائے تو یہ افراد موجودہ گرمی کی لہر اور سیلابجیسی آفات سے متاثر ہورہے ہیں کیونکہ اول الذکر افراد باہم معذوری دوسروں پر انحصار کر تے ہیں۔ شکیلہ مظفر گڑھ کے دور افتادہ گاؤں میں دریائے چناب کے کنارے ببنے حفاظتی بند کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ دریا کے کناریبنائے گئے گھرکے واحد کچے کمرے میں شکیلہ اپنے باپ اور دونوں بھائیوں کے ساتھ بے پروا چارپائی پر پڑی رہتی ہے۔ باپ اکیلا دن بھر سنبھالتا ہے۔ کبھی کبھار بہن آ جاتی ہے تو وہ یہ ذمہ داری سنبھال لیتی ہے۔ گرمی کی شدت کے باعث شکیلہ کا جسم دانوں سے بھرا پڑا ہے مگر وہ اپنی تکلیف پرصرف کراہ سکتی ہے، اس پر مستزاد ٹی بی کا بھی شکار ہوچکی ہے۔جبکہ مخصوص ایام کے دوران گرمی سے اس کی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے تو بڑی بہن آکر سنبھالتی ہے۔ دریا کے کنارے بند پر آباد گاؤں میں صحت کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، یونین کونسل مراد آباد میں دیہی مرکز صحت موجود ہے مگر وہ ان کے گاؤں سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور شکیلہ ذہنی کے ساتھ جسمانی طورپر بھی معذور ہے تو باپ مجبوراً گھر لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ تاہم مجبوراً طبیعت بگڑنے پر کسی سے موٹر سائیکل مستعار لے کر ہسپتال لے کر جاتے ہیں۔

 اسی بستی کی دوسری متاثرہ 36 سالہ حسینہ جس کا معذوری کی وجہ سے نچلا دھڑ کام نہیں کرتا۔حبس زدہ گرمی میں سامان سے بھرے تنگ و تاریک کچے کمرے میں چارپائی پر خاموش بیٹھی کسی بھی بات کاجواب نہ دینے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ایسے میں اس کی ماں وزیراں نے بتایا کہ معدے میں زخم ہو چکے ہیں۔ ایک دن کھانا کھاتی ہے اور دو دن بھوکی رہتی ہے۔چاروں طرف کھیت اور ریتلی مٹی میں گھرے بیٹھے ہیں جبکہ گھر سے نکلنے کے لیے اونچائی چڑھنی اور اترنی پڑتی ہے کہ دریا کے کنارے حفاظتی بند کے ساتھ ہی رہائش ہے۔ ایسے میں عام افراد کو بھی آنے جانے میں دشواری ہے تو حسینہ ایسے معذور افراد کس طور کہیں جا سکتے ہیں۔ جبکہ بیت الخلاجیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔وزیراں نے بتایا کہ چارپائی پر ہی بیٹی کو صاف ستھراکرتی ہوں۔ جب موسم اچھا ہوتا ہے تو گھر کی کچی زمین پر بٹھا دیتے ہیں تو سکون محسوس کرتی ہے کہ ویل چیئر بھی نہیں ہے۔ شدید گرمی میں حسینہ کی طبیعت مضمحل رہتی ہے اور جسم پر دانے بھی نکل آتے ہیں۔جبکہ اس بار کی گرمی نے تو اسے سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔

 دنیا کی رنگینیوں سے بے خبر چودہ برس کی ماہ نور منظور اور سعیدہ کی پہلوٹی کی اولاد ہے۔ پیدائش کے تیسرے دن جھٹکے لگنے پر والدین مظفر گڑھ شہرلے کے گئے مگر وہ شفایاب نہ ہو سکی۔ ایک کمرے کے کچے گھر میں والدین اور تین بہن بھائیوں کے ہمراہ رہتی ہے۔ شدید گرمی اور سردی کا موسم ماں کے لیے تکلیف سے کم نہیں ہوتا کہ ماہ نور اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتی لیکن اس قدر چلاتی اور روتی ہے کہ بہن بھائی بھی پریشان ہو جاتے ہیں۔ ماں دن بھردرخت کے نیچے لے کر بیٹھی رہتی ہے مگر ہوا نہ چلنے کی وجہ سے حبس بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں ماہ نور بہت پریشان ہوتی ہے اور ماں رات ہونے کی منتظر رہتی ہے کہ اندھیرے میں نلکے سے پانی بھر کر اسے چارپائی پرہی کپڑوں سمیت نہلا دیتی ہے تاکہ وہ سکون کی نیند لے سکے۔

غلام مصطفی حادثے میں اپنی دائیں ٹانگ سے محروم ہو کر ہمیشہ کی معذوری کا شکار ہو گیا ہے۔ مصطفی گھر پر ہی رہتا ہے تاہم باامر مجبوری نکلنا پڑے تو بیساکھیوں کا استعمال کرتا ہے لیکن شدید گرمی میں بیساکھی سے بھی اس کے بازوؤں کے نیچے چھالے بن جاتے ہیں تو گھر پر رہنا مجبوری ہے۔ اگر بیمار ہو جائے تو مراد آباد جانا دشوار ہو جاتا ہے کہ سواری نہیں اور اگر کسی رشتہ دار کو کہا جائے تو اس کو مزدوری سے چھٹی کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں مصطفی کسی کو زحمت نہیں دیتا۔ مصطفی نے بتایا کہ ایک دہائی قبل موسم میں اس قدر شدت نہ تھی جس کا اب سامنا ہے۔ ہمیں سیلاب ایسی آفت کے اثرات سے ابھی نجات نہیں ملی کہ گرمی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیاہے جبکہ سردی بھی زور پکڑچکی  ہے۔ بستی میں کوئی سڑک نہیں ہم لوگوں نے خود ہی کچے راستے بنائے ہوئے ہیں ایسے میں چلنا مزید دشوار ہوجاتاہے۔جبکہ گرمی نے جسم اور روح کو زخمی کررکھا ہے جوناقابل بیان ہے۔مصطفی کے مطابق سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے درخت کے نیچیبیٹھے رہتے ساتھ ہوا بھی چلتی لیکن اب تو حبس بڑھ گیا اور سورج ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کے قریب آگیا ہے۔میں بنیادی خوراک سے محروم ہوں،ایک بار گرمی کی شدت سے بیہوش بھی ہوا توگھر والے ادھار پیسے لے کر مراد آباد لے کر گئے جہاں ڈرپ لگائی تو راحت ملی،وہ دن آج کا دن بچتا رہتا ہوں پھر بھی پورا جسم دانوں سے بھرا پڑا ہے۔

 بینائی سے محروم ستر سالہ اللہ بخش اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ ایک زمیندار کی اراضی پر کمرہ بنا کر رہائش پذیر ہے۔ بیٹے زمیندار کا کام کرتے ہیں جبکہ اللہ بخش کی والدہ کرم الٰہی اور اس کے دو ذہنی معذور بھائی ساجد بعمر 47 سال اور بہن بعمر 35 سال فیضاں بھی ہمراہ ہیں۔ بینائی سے محروم اللہ بخش روزگار کمانے سے محروم ہے اس لیے دوسروں کی مدد کا منتظر رہتا ہے جبکہ اس کی ماں کرم الٰہی فیضاں اور ساجد کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ یہ گھرانہ گرمی کے موسم سے بے حال ہے کہ روزمرہ خوراک ہی نہیں ملتی ایسے میں اگر بیماری آ جائے تو کوئی پرسان حال نہیں ہوتا،جبکہ اللہ بخش اور اس کے دونوں بہن بھائی کا جسم گرمی دانوں سے بھرا پڑا ہے اور وہ علاج کرانیکے متحمل نہیں ہیں۔

لمحہ فکریہ ہے کہ اس چھوٹی سی بستی میں رہائش پذیرمرد،بچے اور خواتین افراد باہم معذوری کی بڑی تعداد موجود ہے جنہیں ایک بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ شدید گرمی میں چار دیواری سے محروم ایک، ایک کمرے کے گھروں میں چار سے دس افراد رہائش پذیر ہیں۔ دن بھر پیروں تلے تپتی ریت اور آسمان پر آگ برساتا سورج،حبس ایسا کہ سانس بند ہو جائے اور یہ افراد اپنے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ گرمی کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ماہرین کے مطابق دنیا کی 60 فیصدسے زائد آبادی نے تاریخ کی شدید ترین گرمی کا سامنا کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا درجہ حرارت اوسطََ زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گرمی کی موجودہ لہر نے عوام کے سماجی و معاشی حالات کو بری طرح متاثر کر کے رکھ دیا ہے جس میں پسماندہ علاقوں خصوصی طور پر دیہی آبادی براہ ِراست متاثر ہے جس میں افراد باہم معذور کی زندگی انتہائی دشوار ہے۔

یاد رہے کہ گرمی کے موسم میں بیماری شدت پکڑ لیتی ہے اور افراد باہم معذوری اپنی تکلیف بیان نہ کرسکنے کے باعث زیادہ تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان افراد کو عام افراد سے زیادہ غذائیت بھری خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اور شدید گرمی میں توخوراک کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہاں کے افراد کو معاشی مشکلات کے باعث روزانہ کی بنیاد پر خوراک میسر نہیں ہے۔ یونین کونسل مراد آباد کی”بستی لکڑ والی کھو“ کا کوئی پرسان حال نہیں کہ دریائے چناب سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے حفاظتی بند یعنی پشتوں کے درمیان آباد بستی کے گھروں کی چار دیواری نہیں۔ جبکہ خوراک کا ذکر کریں تو یہاں گندم اور اسٹاربری کی فصل کے علاوہ جانوروں کے چارہ کیلیے گھاس کاشت کی جاتی ہے۔ریتلی زمین ہونے کی وجہسے کوئی سبزی وغیرہ بھی نہیں اگتی۔ کسی بھی بیماری کی صورت میں بہت ترددکے بعد مظفر گڑھ شہر لے کر جایا جاتا ہے جبکہ خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی گھروں میں ہوتی ہے۔اسی طرح گرمی کے موسم میں موذی جانور بھی ایسے افراد کیلیے خطرناک ہوتے ہیں،خدانخواستہ اگر کوئی متاثر ہو تو بروقت طبی سہولت میسر نہیں ہے۔

بلاشبہ ان افراد کو صحت سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ نہ صرف بہتر انداز سے زندگی گزار سکیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی مقابلہ کرسکیں۔تاہم مذکورہ بستی کے افراد باہم معذوری کو حکومتی اداروں میں رجسٹر کرانے اور صحت کا بنیادی شعور اجاگر کرنے کے لیے سماجی تنظیم دوآبہ فاؤنڈیشن کا کردار لائق تحسین ہے کہ ان کی شعوری پسماندگی کے خاتمہ اور انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور موسموں کی حدت سے بچاؤ کیلیے رہنمائی کی جارہی ہے۔

Leave a Comment