تحریر: نارائن کولہی (بدین)
ضلع انتظامیہ ابھی تک کئی علاقوں سے سیلابی پانی نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، اور سیکڑوں گاؤں ابھی تک زیر آب ہیں
ضلع بدین کو اس بات سے بھی پہچانا جاتا ہے کہ “بدین یا تو ڈوبتا ہے یا سوکھتا ہے۔” اس کی وجہ یہ ہے کہ 1991 کے معاہدے کے تحت بدین کو مارچ کے مہینے میں زرعی زمینوں کو پانی فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے، مگر پانی کی فراہمی میں تاخیر کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ اراضی پر فصل کی پیداوار نہیں لگائی جا سکتی۔ جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں، تو اگست اور ستمبر میں پانی فراہم کیا جاتا ہے، جو بارشوں کے ساتھ مل کر سم نالوں میں گنجائش سے زیادہ پانی ڈال دیتا ہے اور پھر سیلاب کی صورت میں تباہی کا سبب بنتا ہے۔
حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہزاروں خاندان متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں روپے مالیت کی زرعی زمینوں کو نقصان پہنچا ہے، ہزاروں مکانات تباہ ہو گئے ہیں، سیکڑوں مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں اور انسانی زندگیاں بھی ضائع ہو چکی ہیں۔ ضلع بدین کو اقتصادی طور پر شدید نقصان پہنچا ہے، کیونکہ یہاں دھان کی کاشت سال بھر کا ذریعہ معاش ہے جس سے کسان، مزدور، دہاڑی دار اور چھوٹے بڑے زمیندار وابستہ ہیں۔ صوبائی حکومت یا ضلع انتظامیہ ابھی تک ایک یونین کونسل کو بھی آفت زدہ قرار نہیں دے سکی ہے، جس کی وجہ سے فلاحی ادارے بھی اپنی خدمات فراہم نہیں کر پا رہے۔
پچھلے چار سالوں میں بدین میں تین بڑے سیلاب آئے ہیں، 2020، 2022 اور 2024، جس کے نتیجے میں بدین سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ مسلسل بارشوں اور سیلاب نے ضلع بدین کو اقتصادی، ماحولیاتی، زرعی اور زرعی زرخیزی کے لحاظ سے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
بدین کی قدرتی خوبصورتی اور رنگارنگی کو ڈیولپمنٹ پروجیکٹس کے نام پر بنائے گئے سم نالوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 2022 اور 2024 میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ بارشیں ہوئیں، لیکن محکمہ آبپاشی نے ایسی کوئی تدابیر نہیں اپنائیں جن سے ان سم نالوں میں شگاف پڑنے سے روکا جا سکے یا بارشوں کا پانی آسانی سے نکالا جا سکے۔ اس غفلت کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ شگاف پڑنے کی صورت میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے، مویشیوں اور جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا، اور جنگلات تباہ ہو گئے، جہاں پرندوں کی خوبصورتی تھی۔ ان آفات کی وجہ سے جنگلی حیات کی نسلیں معدوم ہو گئیں، جو ایک سانحہ سے کم نہیں۔
ان سم نالوں میں زہریلا اور آلودہ پانی بہنے کی وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ زہریلے پانی کی موجودگی کی وجہ سے زمین کی زرخیزی میں کئی سالوں تک کمی آتی ہے۔ دھان کی فصل والی زمینوں پر نمک کی تہہ پڑ جاتی ہے جس سے زمین کی زرخیزی میں مزید کمی ہوتی ہے۔ ضلع انتظامیہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال چھ سم نالوں میں شگاف پڑ چکے ہیں، جو اصل تباہی کا سبب بنے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں چھ انسانی زندگیاں ضائع ہو گئیں اور ایک شخص زخمی ہوا ہے، جبکہ 53 مویشیوں کی اموات بھی ہوئی ہیں جن میں گائیں، بھینسیں، بکریاں اور بھیڑیں شامل ہیں۔
ضلع بھر میں تقریبا 10,000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں، جبکہ 10,000 سے زائد گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ زرعی زمینوں میں موجود تیار فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، جن کی مقدار 47,316 ایکڑ ہے۔ ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بارش کے پہلے دن سے سیلاب متاثرین کو امداد، راشن اور ضروری اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن سماجی کارکنوں نے ان متاثرین کو حکومت کے خلاف روڈوں پر احتجاج کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ کئی سماجی کارکن اور فلاحی ادارے متاثرین کی مدد کرتے ہوئے ان کے حقوق کی ضمانت پر بات کرتے نظر آئے ہیں۔ میڈیا نے بھی ان سیلاب متاثرین کی بھرپور رپورٹنگ کی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ضلع انتظامیہ اب تک کئی علاقوں سے سیلابی پانی نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، اور سیکڑوں گاؤں ابھی تک زیر آب ہیں۔ متاثرین سم نالوں کے کناروں اور سڑکوں پر مدد کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضلع بدین میں سب سے زیادہ نقصان آر ڈی ون اور آر ڈی تھری سم نالوں میں شگاف پڑنے کی وجہ سے ہوا ہے، جہاں ترائی، کنڈیاری اور فتح آباد یونین کونسلز سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ یہاں انسانی زندگیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، اور سب سے زیادہ نقل مکانی بھی ہوئی۔ ابھی بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیر آب ہے اور سیکڑوں گاؤں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور بغیر کسی مدد کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مویشیوں کے چراگاہ زیر آب ہونے کی وجہ سے لاکھوں جانور متاثر ہوئے ہیں۔