رپورٹس

کاپ 29: ماحولیاتی مالیات اور ماحول دوست شہر کاری پر گرما گرم مزاکرات

فروزاں رپورٹ

 شہری آبادیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں کمی لانے کے اقدامات اس مسئلے کی شدت اور وسعت کے مقابلے میں کہیں کم ہیں

اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل میں اضافے کی ضرورت پر بات چیت جاری ہے۔ اس کانفرنس میں خاص طور پر شہرکاری، نقل و حمل اور سیاحت کے مسائل پر توجہ دی جا رہی ہے۔ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی اس کانفرنس میں ترقی پذیر ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل میں اضافہ کیا جائے اور یہ رقم کھربوں ڈالر تک پہنچائی جائے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ چونکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ کم ہے، لیکن اس کے اثرات سب سے زیادہ انہی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

شہری آبادیوں اور موسمیاتی تبدیلی کا تعلق

اس کانفرنس کے علاوہ، مختلف پروگرامز میں ماہرین اور حکومتی نمائندوں نے عالمی حدت کو کم کرنے اور عوام کو موسمی شدت سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آج کی دنیا میں تقریباً نصف آبادی شہروں میں مقیم ہے، اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آئندہ دو دہائیوں میں مزید دو ارب افراد شہروں کی طرف منتقل ہونے کا امکان ہے۔ شہروں کا موسمیاتی تبدیلی میں نہ صرف اہم کردار ہے بلکہ ان پر اس کے اثرات بھی سب سے زیادہ ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این ہیبیٹیٹ’ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، 2040 تک شہروں کے اربوں باسیوں کو عالمی حدت میں کم از کم 0.5 ڈگری سیلسیئس تک اضافے کا سامنا ہوگا۔ اس کے باوجود، شہری آبادیوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے موجود اقدامات اس مسئلے کی شدت اور وسعت کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

ناپائیدار ترقی اور ماحولیات کا تحفظ

‘یو این ہیبیٹیٹ’ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینا کلاؤڈیا روسبیخ نے کاپ کے وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیز رفتار اور غیر منصوبہ بندی شدہ شہری ترقی ماحول، حیاتیاتی تنوع اور غذائی تحفظ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ سماجی تقسیم اور مالی بدانتظامی کا سبب بھی بن رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے روزانہ 96 نئے گھروں کی تعمیر ضروری ہے، جبکہ تعمیراتی شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی 40 فیصد تک ہے۔

شہری سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی کی ضرورت

‘کاپ 29’ کے اجلاس میں ماہرین نے شہروں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بڑے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، 2023 میں عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ اس میں کمی کی توقع تھی۔ یونیپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ 2030 تک ہر ملک کو اپنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 42 فیصد اور 2035 تک 57 فیصد کمی لانی ہوگی تاکہ عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھا جا سکے۔

سیاحت اور موسمیاتی تبدیلی: ایک نیا چیلنج

یہ پہلا موقع ہے کہ کاپ میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے سیاحت پر بات ہو رہی ہے۔ 2023 میں سیاحت نے کووڈ-19 کی وبا سے بحالی کے بعد عالمی سطح پر 90 فیصد سطح تک پہنچنے کے بعد جی ڈی پی میں 3.3 ٹریلین ڈالر کا حصہ ڈالا۔ انگر اینڈرسن نے کہا کہ سیاحت نہ صرف موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی کر رہی ہے۔ لہذا، اس شعبے سے متعلق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی

اقوام متحدہ کے موسمیاتی اقدامات کے خصوصی مشیر سیلوین ہارٹ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دنیا کے پاس پہلے سے موجود علم اور وسائل کا استعمال ضروری ہے۔ قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جاری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس رفتار سے تبدیلیاں موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کو روکنے کے لیے کافی ہیں۔

قرضوں کی واپسی اور مالی امداد کی ضرورت

چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک کے سربراہ کیڈرک شسٹر نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی اقدامات کے لیے سالانہ 39 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جانی چاہیے۔ افریقی ملک سیرالیون کے وزیر جیووہ عبدالائی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ رقم “عطیہ” نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کا واجب الادا موسمیاتی قرض ہے۔

کاپ اور ترقی پذیر ممالک کی تعریف

کاپ میں ‘ترقی پذیر ممالک’ کی تعریف پر بھی بحث ہوئی۔ کچھ مذاکرات کاروں کا کہنا تھا کہ چین اور بعض خلیجی ممالک کی ترقی کے پیش نظر انہیں ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکالنا چاہیے۔

مجموعی طور پر، کاپ 29 میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شہروں اور دیگر شعبوں میں فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عالمی حدت کو کم کیا جا سکے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

Leave a Comment