کاپ رپورٹ
بچوں اور نوجوانوں کا موسمیاتی تبدیلی کے لئے فوری اقدامات کا مطالبہ
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) میں بچوں اور نوجوانوں نے موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ، کرہ ارض کو مزید تباہی سے بچانے اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے بڑھتی ہوئی کوششوں کا پرزور مطالبہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ سازوں پر زور دیا کہ انہیں بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے اور بچوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لئے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
یونیسف کے مطابق، موسمیاتی بحران کا اثر دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب بچوں کی بہبود پر پڑ رہا ہے، جو کہ دنیا بھر کے بچوں کی نصف آبادی کے برابر ہے۔ فضائی آلودگی، وبائی بیماریاں، ماحولیاتی انحطاط اور موسمی شدت کے واقعات نہ صرف بچوں کی صحت کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ان کی تعلیم میں بھی خلل ڈال رہے ہیں اور انہیں بڑھوتری کے لئے ضروری غذائیت سے بھی محروم کر رہے ہیں۔ شدید گرمی کی لہریں چھوٹے بچوں کے لیے پانی کی کمی کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں کیونکہ ان کے جسم بدلتے درجہ حرارت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھ پاتے۔ خشک سالی اور سیلاب خاندانوں کو تباہ کر رہے ہیں اور ان کا بدترین اثر بچوں پر پڑتا ہے۔
بلیو زون میں بچوں اور نوجوانوں کے پینل ڈسکشن اور پریس کانفرنس میں 15 سالہ فرانسیسکو نے موڈریٹر کے طور پر حصہ لیا۔ یاد رہے کہ فرانسیسکو جون میں جرمنی کے شہر بون میں ایس بی 60 کے اجلاس میں حصہ لینے والا پہلا بچہ تھا جس نے اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے کنونشن (UNFCCC) میں بچوں کی لازمی شرکت اور ان کے درمیان مکالمے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی موسمیاتی کارکن زنیرہ، جو کاپ کانفرنس کی کم عمر ترین شرکاء میں سے ایک تھیں، نے یونیسیف کے نوجوان وکیلوں کے پینل میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جب ان کے ملک میں سیلاب آیا تو وسائل کی کمی ہو گئی اور خاص طور پر لڑکیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ انہوں نے مزید کہا، “موسمیاتی آفات جیسے سیلاب اور شدید گرمی کی لہریں ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، اور سیلاب ہماری تعلیم، صحت، سیکیورٹی اور مستقبل کو تباہ کر دیتا ہے۔”
لائبیریا سے تعلق رکھنے والی ورلڈ ایسوسی ایشن آف گرل گائیڈز اینڈ گرل سکاؤٹس کی رکن جنیتا تامبا نے بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک میں سیلاب کے باعث بہت سے اسکول بند ہیں اور بچے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ خشک موسم میں پانی بھرنے کے لئے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں، اور اس دوران لڑکیاں تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔
آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے نوجوان Rasoul نے کاپ 29 میں کہا کہ بڑھتی ہوئی حدت اور گرمی کے طویل ادوار کی وجہ سے بحیرہ کیسپین میں پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے، جس کا اثر ساحلی علاقوں پر واضح ہے۔
برازیل سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ موسمیاتی کارکن کترینا نے بتایا کہ جب وہ 9 سال کی تھیں تو انہوں نے سمندر میں گرمی محسوس کی تھی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے مونگے کے جزیروں پر سفید دھبے بھی دیکھے جو ان کے رنگ اترنے کی علامت تھے۔
کترینا نے کہا کہ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی کو انہوں نے ایک درخواست دی تھی جس میں موسمیاتی بحران سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی پر احتجاج کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، “ہم بچوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دینا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ کاپ 30 نہیں، بلکہ بچوں کے لئے ایک الگ کاپ کانفرنس ہو۔”
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو سے تعلق رکھنے والی کیٹسیا نے کہا کہ اس عالمی موسمیاتی کانفرنس کو صرف رنگین تقریب میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہر کاپ کانفرنس دنیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 16 سالہ موسمیاتی کارکن پیٹن ایساؤ نے اپنے 800 ساتھیوں کے دستخط شدہ منشور کے ساتھ کاپ میں شرکت کی اور حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بچوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں واضح اور سادہ زبان میں آگاہ کریں تاکہ عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد میں رکھا جا سکے۔
کانفرنس میں شریک دیگر بچوں اور نوجوانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی رہنماؤں سے فوری اقدامات کی درخواست کی۔