رپورٹس

اسموگ: ملتان نے لاہور کو مات دے دی

رپورٹ:شائرین رانا

گرمی کی بڑھتی حدت اور ساتھ ہی اسموگ کا جن دونوں ہی بے قابو ہوچکے ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں

بدلتے موسم زندگی کی رعنائی تصور کیے جاتے ہیں مگر گزشتہ چند سالوں سے ان رتوں کی رعنائی ماند پڑ گئی ہے کہ دنیا کی تیز رفتار ترقی نے اسے اپنے ہی کھودے گئے گڑھے میں پھینک دیا ہے اور آج ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں اوریہ تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ آج پاکستان کا صوبہ پنجاب ا سموگ ایسی آفت کی لپیٹ میں ہے۔

صوبہ پنجاب جہاں ستمبر کے آغاز کے ساتھ ہی سردی کی آمد ہو جاتی ہے اب ستمبر تو دور نومبر میں بھی گرمی کا موسم ٹھہرا رہا اور سونے پر سہاگہ گزشتہ برس کی طرح لاہور کے ساتھ جنوبی پنجاب خصوصی طور پر ملتان کو لپیٹ میں لیے رکھا جو تا دم تحریر چھائی ہوئی ہے، تاہم انسداد سموگ کی کارروائیوں کے نتیجے میں قدرے کمی آئی۔ جبکہ نومبر کے آغاز میں تو صورت حال انتہائی خوفناک صورت اختیار کر چکی تھی کہ سب ہی اس آفت سے پریشان ہو گئے اور اس پر مستزاد فضائی آلودگی میں ملتان نے لاہور کو بھی مات دے دی کہ 9 نومبر کی رات ائیر کوالٹی پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ آئی کیو ائیر کے مطابق رات 10 سے 11 بجے کے دوران ائیر کوالٹی انڈیکس 1487 تک پہنچ گیا اور مہلک آلودگی (پی ایچ 2.5) کی سطح 821 ریکارڈ کی گئی جبکہ نصف شب ایک بجے سے 2 بجے کے درمیان ایئر انڈیکس انتہائی بلند سطح 1914 پر پہنچا جس کے بعد ملتان ڈویژن انتظامیہ متحرک ہو گئی اور ایسے عناصر جو اسموگ کا موجب بن رہے تھے ان کے خلاف بھرپور کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔

ملتان ڈویژن کے اضلاع ملتان، خانیوال، وہاڑی اور لودھراں میں یکم نومبر سے 25 نومبر کے دوران ڈویژن و ضلعی انتظامیہ نے محکمہ تحفظ ماحولیات ملتان اور دیگر محکموں کے تعاون سے انڈسٹریل یونٹس اور بھٹہ خشت کے خلاف تادیبی کارروائیاں کیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ ملتان ڈویژن میں کل 220 انڈسٹریل یونٹس کا معائنہ کیا گیا۔ جن میں 15 کو نوٹس جاری کیے گئے اور 45 سربمہر، 5 مسمار اور سات کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

اسی طرح بھٹہ خشت جو اسموگ میں اضافے کی بڑی وجہ بن گیا ہے کے خلاف بھی یکم سے 25 نومبر تک تادیبی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ ملتان ڈویژن میں 1026 بھٹہ خشت کا معائنہ کیا گیا جن میں 36 سربمہر، 157 مسمار، 278 کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 15 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔جبکہ ان تمام بھٹہ خشت کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہونے کا پابند کیاگیاہے اسی طرح ہیوی ٹریفک کا داخلہ شہر میں بند کیا گیا۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی اور پبلک ٹرانسپورٹ 70 ویڈا بسوں کو بھی آف روڈ کیا گیا۔ فصلوں کی باقیات اور کوڑا کرکٹ جلانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔

اسی طرح اسموگ جہاں فضا کو آلودہ کرنے کا باعث ہے وہیں یہ انسانوں، جانوروں سمیت فطرت کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور جان لیوا امراض کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسموگ سے سانس اور دل کے امراض بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر یکم سے 25 نومبر کے دوران ملتان کے صرف ایک مرکزی ہسپتال نشتر کا ذکر کیا جائے تو اس دوران 1717 مریض سانس، دمہ، دل کی تکلیف اور مختلف الرجی کا شکار ہوئے۔ ان سرکاری اعداد و شمار کے علاوہ دیکھا جائے تو اس دوران ہر دوسرا شخص گلے کی خراش اور درد، کھانسی کا شکار رہا ہے جبکہ غیر معمولی اسموگ کے اثرات کا درست اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں صرف ایسے افراد رجوع کرتے ہیں جو مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتے۔

اسموگ کی وجوہات و تدارک کے حوالے سے ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ ماحولیاتی سائنسزبہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ڈاکٹر محمد داودکا کہنا ہے کہ اسموگ ایک مرکب فضائی آلودگی ہے، جو ”اسموک“ (دھواں) اور ”فوگ“(دھند) کے امتزاج سے بننے والی اصطلاح ہے۔ فضائی آلودگی کی یہ قسم دھندلی اور کثیف کیفیت پیدا کرتی ہے، جس میں ہوا میں معلق باریک آلودہ ذرات (پی ایم5.2، پی ایم 10)، دھواں اور زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ اسموگ بنیادی طور پر شہری اور صنعتی علاقوں میں زیادہ نظر آتی ہے خاص طور پر موسم سرما کے دوران جب ہوا میں نمی اور آلودگیوں کا امتزاج بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے اسموگ کی وبا پنجاب کے شہری علاقوں میں بتدریج خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ مون سون سیزن کے اختتام اور سردیوں کے شروع میں ہوا کی رفتار انتہائی کم اور ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں حرارتی الٹاوکے نتیجے میں زمین کی سطح کے قریب ہوا کا درجہ حرارت ٹھنڈا اور اوپر کی سطح پر گرم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے آلودگی اورا سموگ زمین کے قریب پھنس جاتی ہے اور فضائی کثافتیں معلق ہو کر اسموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔اسموگ اور فضائی آلودگی کی شدت کا اندازہ کرنے کیلئے اے کیو آئی کی اصطلاح کافی اہمیت کی حامل ہے۔اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) فضا میں موجود مختلف آلودہ ذرات اور گیسوں کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے، جو ہوا کے معیار کو سمجھنے اور انسانی صحت پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے میں مدد دیتا ہے۔

یہ خاص طور پر باریک ذرات (پی ایم5.2)، موٹے ذرات (پی ایم 10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2)، اوزون (او 3) اور سلفر ڈائی آکسائیڈ (ایس او 2) اور ہائیڈروکاربن جیسی آلودگیوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ پی ایم5.2 ذرات انتہائی باریک ہوتے ہیں اور سانس کے ذریعے انسانی پھیپھڑوں میں گہرائی تک جا سکتے ہیں، جس سے سانس کی بیماریوں، دمہ، اور دل کی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ پی ایم 10 نسبتاً بڑے ذرات ہیں جو گلے اور سانس کی نالی کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی طرح نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور اوزون، جو زیادہ تر گاڑیوں کے دھوئیں اور صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، سانس کے نظام پر شدید اثرات ڈال سکتے ہیں۔اے کیو آئی کو مختلف پیمانوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، جہاں 0 سے 50 تک کی سطح کو ’اچھی ہوا‘، 51 سے 100 تک کو ’مناسب‘، 101 سے 150 تک کو ’مضر صحت‘ اور 150 سے اوپر کی سطح کو ’انتہائی مضر صحت‘ قرار دیا جاتا ہے۔اسموگ کی وجہ بننے والے بنیادی ذرائع میں گاڑیوں اور صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والا دھواں اور گیسیں، فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا ہونے والے ذرات اورتعمیراتی سرگرمیوں اور غیر منظم شہری ترقی سے اڑنے والی دھول شامل ہیں۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا شور اٹھا تو اداروں کے کانوں پر جوں نہ رینگی مگر 2010 کے سیلاب نے ملک کو غرقاب کردیا تو ہوش آیا مگر اس آفت کے گزر جانے کے بعدبھی ہمارے رویے پہپہلے جیسے ہو گئے اورہم ہر وقت ترقی یافتہ ممالک کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ہمیں کسی کو الزام دینے کے بجائے اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔گرمی کی بڑھتی حدت اور ساتھ ہی اسموگ کا جن دونوں ہی بے قابو ہوچکے ہیں اس سبکیذمہ دار ہم سب ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے اردگرد کے ماحول کا خود خیال رکھنا ہے۔موجودہ دور میں سب ہی بخوبی آگاہ ہیں کہ کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کافی حد تک اسموگ سے بچا جاسکتا ہے دوسری جانب حکومت بھی جب بلا سر پر آجاتی ہے تو جاگتی ہے اس کو بھی روزانہ کی بنیاد پر ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی سرگرمیوں کامکمل تدارک کرنا ہوگا تاکہ کسی حد تک انسان کے اپنے مسائل کی وجہ سے پیدا کردہ ماحولیاتی مسائل پر قابو پایا جاسکے۔

Leave a Comment