مضامین

صاف پانی کے حصول میں سولر کا کلیدی کردار ہے

تحریر: سعدیہ عبید خان

صاف پانی کے حصول میں سولر کا کلیدی کردار: حکومت سندھ اور عالمی بینک کے تعاون سے بحالی اور تعمیر نو کا مشترکہ منصوبہ

ہر دوسرے ہفتے، نوری کی بہو اپنے بچوں کو پیٹ درد کی شکایت کے ساتھ گاؤں کے واحد اسپتال لے جاتی، جبکہ نوری کا بیٹا، جو کہ گاؤں کا واحد فرد تھا جو پانی لانے کی ذمہ داری اُٹھاتا تھا، دو کلومیٹر دور نہر سے پانی لانے کے کام میں مشغول ہوتا۔ یہ پانی گدلا تھا جس کی وجہ سے پیٹ کی بیماریاں اور جلدی مسائل عام تھے۔ سندھ کے بیشتر گاؤں کی طرح، یہاں بھی پانی کے انتظام کی ذمہ داری خواتین پر ہی تھی۔ نوری کی بہو اپنے بچوں کی بیماریوں اور گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ پانی کی فراہمی کی فکر میں بھی الجھتی رہتی تھی، کیونکہ اسے دو کلومیٹر دور نہر سے پانی لانا پڑتا تھا۔

2022 کے سیلاب نے اندرون سندھ کے علاقوں میں جہاں مکانات اور رہائشی سہولتیں متاثر ہوئیں، وہیں صاف پانی کی فراہمی کے نظام کو بھی تباہ کر دیا۔ ضلع جامشورو کے تعلقہ کوٹری کا گاؤں کھارو کھوہ بھی اس کا شکار تھا جہاں 250 خاندان آباد ہیں۔ یہ گاؤں ملاح کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے اور یہاں کی اکثریت مچھلیاں پکڑنے اور کھیتی باڑی سے وابستہ ہے۔ دو اسکولوں اور ایک اسپتال پر مشتمل اس گاؤں میں سیلاب کے بعد صاف پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا۔

محمد اسلم لغاری، ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر سندھ فلڈ ایمرجنسی ریہیبلیٹیشن پروجیکٹ (ایس ایف ای آر پی) کے مطابق، حکومت سندھ کے پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ نے عالمی بینک کے مالی تعاون سے سندھ کے مختلف اضلاع میں بحالی اور تعمیر نو کا کام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے میں بدین، عمر کوٹ، شہید بے نظیر آباد، میرپورخاص، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، دادو، جامشورو، نو شہرو فیروز، خیرپور ون اور خیرپور ٹو شامل ہیں، جہاں سولر پمپوں کی مدد سے میٹھے پانی کی فراہمی کے نظام کو فعال کیا جا رہا ہے۔

کھارو کھو گاؤں میں سیلاب کے بعد پانی کے نظام کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔ یہاں کے لوگ تقریباً دو کلومیٹر دور کے بی فیڈر سے پانی لاتے تھے، اور اکثر خواتین اس کام میں دن کا بیشتر حصہ گزار دیتی تھیں۔ گندہ پانی پیٹ کی بیماریوں کا سبب بن رہا تھا اور چھوٹے بچوں کی صحت پر اثر انداز ہو رہا تھا۔

سندھ فلڈ ایمرجنسی ریہیبلیٹیشن پروجیکٹ نے یہاں پانی کی صفائی، پرانے پائپوں کی تبدیلی، سولر پینلز کی تنصیب اور موٹروں اور پمپس کی تبدیلی کا کام شروع کیا۔ خراب پمپ ہاؤس کی مرمت کی گئی اور سینٹریفیوگل پمپ نصب کیے گئے۔ اس کے علاوہ ٹیوب ویل بورز بھی فراہم کیے گئے تاکہ پانی کی فراہمی میں کمی نہ آئے۔

عبدالوحید منگی، سینئر ٹیکنیکل آفیسر ایس ایف ای آر پی نے بتایا کہ جب انہوں نے کھارو کھو واٹر سپلائی اسکیم کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ سولر سسٹم کی صلاحیت ناکافی تھی۔ واٹر سپلائی کے لیے 45 کلو واٹ کے سولر پمپ کی ضرورت تھی، لیکن سسٹم کی صلاحیت صرف 20 کلو واٹ تھی۔ اس کے بعد سسٹم کی صلاحیت کو بڑھا کر 45 کلو واٹ کر دیا گیا، اور اب یہ مکمل طور پر فعال ہے۔

گاؤں میں صاف پانی کا ذخیرہ کرنے والا ٹینک 179,000 گیلن کی گنجائش رکھتا ہے اور فلٹریشن یونٹس نصب کیے گئے ہیں تاکہ پانی کا معیار برقرار رکھا جا سکے۔ پمپوں اور پائپوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے والے تالابوں کی بحالی بھی کی گئی۔ پانی کی مسلسل فراہمی کے لیے 21 کلو واٹ کا سولر پینل نصب کیا گیا ہے۔

ثنا صدیق، سوشل سیف گارڈ اور ریسیٹلمنٹ اسپیشلسٹ نے بتایا کہ واٹر سپلائی منصوبے کے ڈیزائن مرحلے میں، گاؤں کے مردوں اور خواتین سے مشاورت کی گئی تاکہ ان کی ضروریات اور مسائل کو سمجھا جا سکے اور انہیں ڈیزائن میں شامل کیا جا سکے۔ ان مشاورتوں کے دوران کمیونٹی نے صاف پینے کے پانی کے لیے فلٹریشن پلانٹ فراہم کرنے کی درخواست کی، جس پر عمل کرتے ہوئے فلٹریشن سسٹم اور ہائپو کلورینیٹر نصب کیے گئے۔

شہریار احمد، انوائرنمنٹ اسپیشلسٹ نے بتایا کہ بحالی کے کاموں میں ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہوتا ہے، جس کے لیے ایک تخفیفی منصوبہ تیار کیا گیا ہے جو پانی کے معیار، فضلہ مواد کی دیکھ بھال اور دیگر ماحولیاتی عوامل پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

غلام اصغر کناسرو، پروجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق، سندھ فلڈ ایمرجنسی بحالی پروجیکٹ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پائیدار ترقی کے لیے کام کر رہا ہے۔ واٹر سپلائی اور نکاسی آب کی اسکیموں پر کام زور و شور سے جاری ہے، اور اس منصوبے کے تحت 534 اسکیموں میں سے 89 مکمل ہو چکی ہیں جبکہ باقی اسکیموں پر کام دسمبر 2025 تک مکمل ہونے کا امکان ہے۔

کھارو کھو کے رہائشیوں کے چہرے صاف پانی تک رسائی کی سہولت پر خوش ہیں اور یہ منصوبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سولر توانائی کے ذریعے صاف پانی کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے روایتی پانی کے ذرائع متاثر ہو چکے ہیں۔

Leave a Comment