مضامین

پاکستان کے توانائی اور موسمیاتی چیلنجز کا حل: الیکٹرک گاڑیوں کا کردار

تحریر: حسین رضوی 

زیروایمیشن گاڑیوں کی طرف بتدریج منتقلی کے ذریعے، پاکستان عالمی موسمیاتی کوششوں میں حصہ ڈال سکتا ہے

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پانچ ممالک میں شامل ہے، اور اس کا سب سے بڑا چیلنج گرین ہاؤس گیسوں (GHG) کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کے پیش نظر، پاکستان زیادہ تر درآمدی تیل پر انحصار کرتا ہے، جو فضائی آلودگی اور گیسوں کے اخراج میں اضافہ کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ پیرس معاہدے کے تحت، پاکستان نے 2030 تک اپنے متوقع اخراج کو 50 فیصد تک کم کرنے کا ہدف رکھا ہے، تاہم نیٹ زیرو اخراج حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

ٹرانسپورٹ کا شعبہ اور اس کا موسمیاتی اثر

پاکستان میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ پیٹرول اور ڈیزل کا بڑا صارف ہے، اور اس سے ہونے والا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ تاہم، الیکٹرک گاڑیاں (EVs) کسی بھی قسم کے اخراج کی پیداوار نہیں کرتیں، اس لیے ان کا استعمال فضائی آلودگی کو کم کرنے اور مجموعی اخراج کو گھٹانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ عالمی سطح پر، الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال ایک ٹیکنیکی ترقی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان بھی عالمی سطح پر موسمیاتی وعدوں کو پورا کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور اقتصادی ترقی کے لیے الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے فوائد پر غور کر رہا ہے۔

الیکٹرک گاڑیاں: پاکستان کے ماحولیاتی حل کا حصہ

الیکٹرک گاڑیاں ماحول دوست ہیں اور ان کا استعمال درآمدی تیل پر انحصار کم کرسکتا ہے، جو پاکستان کی درآمدات کا ایک بڑا حصہ ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کی طرف منتقلی ملک کے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے اور فضائی معیار کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرسکتی ہے۔ ان گاڑیوں کے استعمال سے زندگی بھر کے اخراجات میں کمی آتی ہے، خاص طور پر ان گاڑیوں کے مقابلے میں جو گیسولین یا ڈیزل پر چلتی ہیں۔ پاکستان کی ای وی پالیسی 2019 کا مقصد 2030 تک تمام گاڑیوں کا 30% الیکٹرک بنانا ہے، تاہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے متعدد چیلنجز موجود ہیں جن میں غلط فہمیوں اور ای وی اپنانے کے رکاوٹیں شامل ہیں۔

پاکستان کی نیو انرجی وہیکل (NEV) پالیسی: 2025-2030

پاکستان کی نیو انرجی وہیکل (NEV) پالیسی 2025-2030 کے مسودے میں تیل کی درآمدات کو کم کرنے کے لیے ایک واضح روڈ میپ پیش کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان نے اسی راستے پر چلنا جاری رکھا تو 2060 تک تیل کی درآمدات کا بل 64 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ تاہم، پالیسی میں زیرو ایمیشن گاڑیوں کی طرف بتدریج منتقلی کا ہدف طے کیا گیا ہے، جس کے تحت 2030 تک نیو انرجی وہیکل (NEV) کی 30% فروخت کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، اور 2040 تک یہ 90% تک پہنچ جائے گا۔ 2050 تک مکمل طور پر نیو انرجی وہیکل (NEV) کی فروخت کا مقصد رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت نیو انرجی وہیکل کی ترقی کے لیے مخصوص ٹیکنالوجی زونز (STZs) کے قیام کو فروغ دے گی۔

نیو انرجی وہیکل (NEV) کے لیے ٹیکس پالیسی

حالیہ پالیسی میں پاکستان میں نیو انرجی وہیکل (NEV) کے لیے ایک متوازن ٹیکس اور ٹیرف ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے، جس کا مقصد نہ صرف نیو انرجی وہیکل (NEVs) کے استعمال کو فروغ دینا ہے بلکہ مقامی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو بھی بڑھانا ہے۔ دو اور تین پہیوں والی نیو انرجی وہیکل (NEVs) پر 50% درآمدی ٹیکس عائد کیا جائے گا، اور مقامی پیداوار کو ترجیح دی جائے گی۔ مسافری گاڑیاں اور ہلکی کمرشل نیو انرجی وہیکل (NEVs) پر 30 جون 2027 تک 25% کسٹمز ڈیوٹی ہوگی، جس کے بعد یہ بڑھ کر 50% ہو جائے گی۔ ہیوی کمرشل گاڑیوں جیسے کہ ٹرک اور بسوں پر کم ترین کسٹمز ڈیوٹی عائد کی جائے گی، تاکہ ان گاڑیوں کی مقامی تیاری کو فروغ دیا جا سکے۔

پاکستان کی موسمیاتی حکمت عملی کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنا ایک اہم مقصد ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کا استعمال ان اہداف کے حصول کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ ان گاڑیوں کا استعمال نہ صرف فضائی آلودگی کو کم کرنے اور توانائی کے درآمدی اخراجات کو کم کرنے میں مدد دے گا، بلکہ پاکستان کے موسمیاتی وعدوں کے مطابق کام کرنے میں بھی مدد کرے گا۔ حکومت کی ای وی پالیسی 2019 اور نیو انرجی وہیکل (NEV) پالیسی 2025-2030 کے مسودے کے تحت، پاکستان زیرو ایمیشن گاڑیوں کی طرف منتقلی کو تیز کرنے کے لیے مضبوط اہداف اور حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ تاہم، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے اور عوامی آگاہی کے حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہوگی تاکہ پاکستان نہ صرف موسمیاتی چیلنجز سے نمٹ سکے بلکہ ایک پائیدار توانائی کے مستقبل کی تخلیق بھی کرسکے۔

Leave a Comment