ڈاکٹر طارق ریاض
قدرت نے سب سے اچھا سیارہ ہمیں دیا ہے، اب اسے ہم سب سے برا بنانے پر تلے ہیں
قدرت نے ہمیں سب سے بہترین سیارہ دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اسے سب سے زیادہ تباہ کن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کے ہر جاندار کو زندہ رہنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور خوراک ہی وہ ذریعہ ہے جس سے انسان اپنی توانائی حاصل کرتا ہے۔ انسانی جسم مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی عملوں کے ذریعے خوراک میں چھپی توانائی کو استعمال کرتا ہے، جس سے ہماری زندگی کے افعال سرانجام پاتے ہیں۔ چونکہ خوراک کا حصول انسان کا بنیادی حق ہے، اقوام متحدہ ہر سال 16 اکتوبر کو عالمی یوم خوراک مناتی ہے تاکہ اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔
خوراک وہ غذائی اشیاء ہوتی ہیں جو ہمارے جسم کو ضروری کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، وٹامنز، اور نمکیات فراہم کرتی ہیں۔ 1979 میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس میں ہنگری کے وزیر خوراک ڈاکٹر پال رومان نے اہم کردار ادا کیا۔ آج یہ دن دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک میں بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔ رواں برس عالمی یوم خوراک کا مرکزی پیغام ہے “دنیا کو خوراک دو، زمین کو بچاؤ”۔
یہ پیغام دراصل ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو خوراک کے حصول میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی مختلف وجوہات ہیں جن میں قدرتی عوامل جیسے زلزلے اور سمندری طوفان شامل ہیں، لیکن سب سے بڑا اثر انسان کے غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی کا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر آلودگیوں کا ماحول میں شامل ہونا، درختوں اور جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ، اور زرخیز زمینوں پر تعمیرات ان سب کا ماحولیاتی توازن پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ مزید برآں، پیٹرول، ڈیزل اور کوئلے کا استعمال، صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے نکلنے والا دھواں، اور غیر محفوظ فضلہ ماحول کی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے ہماری زمین کا ماحول مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو ہم زمین کے درجہ حرارت میں اضافے، سردیوں کے دورانیے میں کمی، سمندری سطح میں اضافے، بے موسم بارشوں، خشک سالی میں اضافے، زیر زمین پانی کی سطح میں کمی، جنگلی حیات کے خاتمے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات میں محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ سب الارم ہیں جو ہمیں بتا رہے ہیں کہ فوری طور پر اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی تاکہ ہم ماحولیاتی تباہی سے بچ سکیں۔ یہ تباہی صرف انسان کا نتیجہ ہے کیونکہ فطرت کی کوئی چیز ان تبدیلیوں میں ملوث نہیں ہے۔
اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سب مل کر اقدامات کریں۔ ہمیں دھواں پیدا کرنے والے ذرائع کا کم سے کم استعمال کرنا ہوگا اور توانائی کو محفوظ اور مؤثر طریقے سے استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں صنعتی فضلے کو محفوظ طریقے سے نکالنا، زرعی رقبے پر جدید سائنسی طریقے اپنانا اور جنگلات کا تحفظ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، غیر زرعی زمین پر تعمیرات کی بجائے زرعی زمین کو بچانا چاہیے، تاکہ ہم اپنی خوراک کی پیداوار کو بڑھا سکیں اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کر سکیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے خوراک کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے لیے خوراک کی فراہمی ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور طویل خشک سالی جیسے موسمیاتی تغیرات فصلوں کی صحت پر منفی اثر ڈال رہے ہیں، جس سے غذائی قلت بڑھ رہی ہے۔ بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور زیر زمین پانی کی سطح کا گرنا بھی فصلوں کی پیداوار کو متاثر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی زیادتی جڑی بوٹیوں کو فصلوں پر حاوی کر رہی ہے اور جنگلی حیات کا قتل عام ہماری فصلوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ تمام ممالک عالمی سطح پر فوڈ سیکیورٹی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زرعی اور صنعتی پالیسیاں تشکیل دیں جو انسانی مستقبل کو محفوظ بنائیں۔ پانی کے محفوظ استعمال، جنگلات کا فروغ، اور کلائمیٹ اسمارٹ ایگری کلچر جیسے اقدامات پر زور دینا ضروری ہے۔ عالمی یوم خوراک کا پیغام یہی ہے کہ اگر ہم اپنی زمین کو بچائیں گے تو ہی ہم اپنی روزی روٹی حاصل کر سکیں گے۔ قدرت نے ہمیں سب سے بہترین سیارہ دیا ہے، اب ہمیں اس کی حفاظت کرنی ہوگی تاکہ ہم اسے تباہی سے بچا سکیں۔