تحریر: ماریہ اسماعیل
بڑے منصوبوں میں عوام کو مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ایسے منصوبے بن جاتے ہیں جو سماجی اور ماحولیاتی تباہیوں کا سبب بنتے ہیں
ملیر اور ملیرندی کراچی کے رہے سہے ماحولیاتی نظام کی بقا کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اس حوالے سے ملیر ایکسپریس وے جیسے ماحول دشمن منصوبے کوختم کرکے ملیرندی اور اس سے وابستہ مقامی لوگوں کو با عزت طریقے سے زندہ رہنے کاحق دیاجائے۔ ملیر ایکسپریس وے اور اس جیسے بہت سے دیگر منصوبوں کے تناظر میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخرکیاوجہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے ہمیشہ ایسے منصوبوں ہی پرفنڈنگ کرتے ہیں جوانسان اور ان سے جڑے ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک لمبی فہرست موجود ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے متنازع منصوبہ ملیرایکسپریس وے کی تعمیرپرمقامی آبادی کی جانب سے متعدد شکایات سامنے آئی ہیں۔ یہ شکایات زیادہ ترزمینوں کی خریداری کے طریقہ کار،ان کے رہائشی علاقوں سے درختوں کی کٹائی اورثفافتی اورماحولیاتی وسائل کی بقاکے خطرات سے متعلق ہیں۔ مقامی آبادی کاموقف ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے ان کی قدیم زمینوں پرقبضہ کرلیاگیاہے۔ ساتھ وہ اس بات پربھی احتجاج کررہے ہیں کہ ان کی مشاروت کے بغیراس منصوبے کوآگے بڑھایاگیاہے۔ جب کہ قانونی طور پر بھی لازم ہے کہ ایسے منصوبوں کی تعمیر سے پہلے، مقامی آبادی سے مشاورت کرنا ضروری ہے لیکن عالمی مالیاتی ادارے اور فنانس دینے اولے ادارے شاذ ور نادر ہی مقامی آبادی سے مشاورت کرتے ہیں۔
ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے مقامی افراد شدید احتجاج کررہے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اس منصوبے سے ماحول کا شدید نقصان ہوگا جس میں پانی کی آلودگی، زرعی زمینوں کی تباہی اورمقامی حیاتیاتی تنوع کانقصان بھی شامل ہے۔ مقامی افراد کو اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب ان کے احتجاج کے پیش نظرایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اپنی ترجیحات میں اس منصوبے کونہیں رکھا بلکہ فنڈنگ روک دی ہے۔ لیکن بجائے اس کے،کتنا بہتر ہوتا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے ادارے اس منصوبے کے لیے فنڈنگ کرنے سے پہلے مقامی لوگوں کو اپنے مشاورتی عمل میں شامل کر لیتے جیسے انہوں نے حکومت اور دیگر اداروں کے ساتھ کیا ہوگا۔
مقامی رہائشی اورسماجی کارکن عظیم دھکان نے کہاکہ جام صادق برج سے کاٹھورتک 40 کلومیٹرطویل روڈ جو 24گاوں سے گزرے گی،ملیرندی کے دونوں اطراف کے مقامی لوگوں کے آنے جانے میں شدید رکاوٹ ڈالے گا۔ عظیم دھکان کاکہناتھاکہ مقامی لوگوں نے اس منصوبے کوہائی کورٹ میں چیلینج کیاتھا۔ کورٹ نے ہمارے تمام نکات کوتسلیم کرتے ہوئے عجیب فیصلہ دیاکہ عوامی مفاد میں اس کی تعمیرکی اجازت دی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس منصوبے پر ہمارے ماحولیاتی اعتراض کو قبول کرتے ہوئے فنڈنگ روک دی ہے۔
40 کلومیٹر ملیرایکسپریس وے منصوبے کاافتتاح دسمبر 2020ئکیاگیاجبکہ ٹینڈر2019میں شروع کیا۔ اس پر تقربیا160ملین ڈالرز لاگت آئے گی۔ سندھ حکومت کاکہناہے یہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشب کے تحت ایک اہم شہری انفراسٹرکچرکامنصوبہ ہے جس سے روزگارکے مواقع پیداہوں گے اورٹریفک روانی بہترہوگی۔ یہ سٹرک کراچی کے علاقے کورنگی کے جام صادق پل سے شروع ہوکرایم نائن کاٹھورپل پر اختتام پزیر ہوگی۔اس منصوبے کو30ماہ میں مکمل کرناہوگا۔
یہ سٹرک کراچی کے پوش علاقوں ڈنفیس ہاوسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)ڈنفیس ہاوسنگ سٹی اوربحریہ ٹاون کوآپس میں ملائے گی۔اس منصوبے سے عوام کوکوئی فائدہ نہیں ہے۔بلکہ یہ اشرافیہ کی آبادیوں کوآپس میں جوڑنے کے لیے تعمیر کیاجارہاہے۔اس منصوبے کے حوالے سے ماحولیاتی کارکن اورمقامی افراد بھی مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔جن میں کراچی بچاوتحریک،انڈیجنسیں رائٹس الائسنس اورکراچی ماحولیاتی تحفظ موومنٹ وغیرہ شامل ہیں۔مقامی باشندوں کاکہناہے کہ اس سڑک کے راستے میں ’سیّد ہاشمی ریفرنس لائبریری‘ بھی آ رہی ہے۔ چار دہائیوں قبل قائم کی گئی یہ لائبریری بلوچ کلچر کے حوالے سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ نے سندھ حکومت کو لائبریری کے انہدام سے روک دیاہے جبکہ مقامی لوگوں اورسندھ ہائیکورٹ کی دباو کی وجہ سے سندھ حکومت نے اس کوقومی ورثے میں شامل کرلیاہے۔
کلائمنٹ ایکشن سینٹرکے ڈائریکٹر یاسرحسین کاکہناتھاکہ ملیرایکسپریس وے ایک متنازعہ منصوبہ ہے۔انہوں اس بات کاانکشاف کیاکہ جس کمپنی کوٹھیکا دیا گیاتھا، اس کے بارے میں اب تک معلوم نہ ہوسکاکہ کون سی کمپنی کودیاگیاہے۔
یاسرحسین نے کہاکہ لوگوں کی زرعی زمینوں کے اوپرسڑک بنائی جارہی ہیں۔ ان کاکہناتھاکہ 40کلومیٹرہائی وے کودریاکی مٹی سے پرکرکے پل بنایاجارہاہے جوکہ ایک غیرقانونی عمل ہے۔ اس پرہائی کورٹ کااسٹے آرڈ رموجودہ ہے۔ آپ دریاکی مٹی اس طرح استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔یاسرحسین کاکہناتھاکہ ملیرندی کاویسے ہی براحال ہے کہ اس میں آس پاس کی صنعتوں کافضلہ اورگندہ پانی اس میں شامل ہوتاہے۔یاسر حسین نے فنڈنگ کے حوالے سے بتایاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے فنڈنگ کی تھی مگر2023میں ختم کردی ہے۔اس کی وجہ یہ تھی ہم نے مقامی باشندوں اورآبادگاروں کے ساتھ مل کر اس بینک کو ایک خط لکھا تھاجس میں کہاتھا کہ اس کی تعمیرکے کس قسم کے نقصان ہوسکتے ہیں جبکہ متعلقہ بینک نے کسی بھی مرحلے میں مقامی افراد سے مشاورت نہیں کی تھی۔
محمد توحید کراچی اربن لیب سے وابستہ اور ماحولیاتی اثرات سے متعلق جائزوں (ای آئی اے) کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیر ایکسپریس وے منصوبے میں بہت سے سقم موجود ہیں۔ بظاہر یہ حکومت سندھ کا پروجیکٹ ہے لیکن کسی ڈونر کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکا’ملیر ایکسپریس وے پرائیویٹ لمٹیڈ نامی کمپنی کو دیا گیا، جس کے حوالے سے مزید کوئی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ماحولیاتی قوانین یعنی پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 اور سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے مطابق تمام بڑے منصوبوں کا ماحولیاتی جائزہ اور ای آئی اے پر عوامی مشاورت ضروری ہے۔اس منصوبے پر 800 صفحات کی ای آئی اے رپورٹ پر عوامی مشاورت میں مقامی لوگوں نے اس پر بہت اعتراضات کیے تھے۔قانون کے مطابق جب تک ای آئی اے سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے منظور نہیں کروایا جاتا تب تک اس منصوبے پر کام نہیں شروع کیا جا سکتا تاہم کام شروع ہو چکا ہے۔
مقامی صحافی سامی میمن کاکہناہے کہ یہ منصوبہ کرونا کے دنوں 2020 میں شروع کیاگیاتھاجبکہ اس کا نقشہ 2021میں پاس کیاتھاجب اس پرکام شروع ہواتووہاں کے مقامی باشندوں،چھوٹے زمین داروں اورسول سوسائٹی سمیت ماحول دوست افراد نے سخت قسم کااحتجاج کرتے ہوئے سوسے زائد شکایات درج کیں جس میں کہاگیاکہ لوگ بے گھرہورہے ہیں،زرخیرزمین تباہ ہورہی ہے اورعوام کو اس منصوبے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس تعمیرات کے دوران یہاں سے مقامی جانور اورپرندے بھی کہیں دور چلے گئے ہیں۔ سامی میمن کاکہناتھایہ منصوبہ عام لوگوں کو کسی قسم کافائدہ نہیں دے گابلکہ جوان کے پاس تھاوہ بھی لے لیا ہے۔انہوں نے کہ ہماری صدیوں پرانی ملیر ندی کے پاٹ کوچھوٹاکرکے اسے ایک نالے کی شکل دے دی ہے جس کی وجہ 2022میں جوتباہی آئی تھی وہ ناقابل برداشت تھی اور جب یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا توپھرتباہی ہی تباہی ہوگی۔
ملیرایکسپریس وے کے پراجیکٹ ڈائریکٹرنیازسومرونے ٹرانسپیریسی انٹرنیشنل پاکستان کے منصوبے کے اندر سیپرا رولز کی خلاف ورزی اور کرپشن کے الزاموں کومسترد کرتے ہوئے کہاکہ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے،منصوبے کے حوالے سے تمام تر عمل بین الاقوامی معیاراورسیپراکے رولز کے مطابق کیا گیاہے۔ان کاکہناتھاکہ منصوبہ کے لیے ملکی اورغیرملکی اخبارات میں اشہتارات بھی دے گئے تھے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس قسم کے منصوبوں میں ماحول اور سماجی، ثقافتی ورثوں کا خیالنہیں رکھا جاتا۔ خاص طور پر عالمی مالیاتی ادارے، جیسا کہ اس کیس میں ایشیائی ترقیاتی بینک ہے نے ایسے منصوبے کو بغیر تحقیق کئے ہوئے، مالیاتی تعاون کا وعدہ کیا جو کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اپنے کمیونٹی اور سماجی سیف گارڈس کی پالیسی کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عموما بڑے منصوبوں میں عوام کو مشاورت کے عمل میں شامل نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ایسے غیرپائیدار اور تباہ کن منصوبے بن جاتے ہیں جو کہ سماجی اور ماحولیاتی تباہیوں کا سبب بنتے ہیں۔
ایسی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں، جیسا ایل بی او ڈی کا منصوبہ جو کو عالمی بینک نے فنڈ کیا اور اس میں بھی مقامی افراد سے مشاورت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ان مقامی افراد نے انڈپڈینٹ انسپیکشن پینل کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے نتیجے میں عالمی بینک نے یہ تسلیم کیا کہ ایل بی او ڈی کی ڈیزائن میں مقامی لوگوں کی مشاورت شامل نہیں تھی اور نہ ہی مقامی تجربات اور لوک دانش کو شامل کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ایل بی اوڈی کا یہ منصوبہ عوام کے لے وبال جان بن گیا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے اپنے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھیں، کہیں ملیر ایکپریس وے کا منصوبہ بھی ایسے منصوبوں میں شامل نہ ہو جائے۔