فروزاں رپورٹ
پاکستان کے شہر جنہیں سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہوگا، ان میں کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شامل ہیں۔
دنیا کی تقریباً نصف آبادی آج کل شہروں میں رہتی ہے اور یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2050 تک یہ شرح 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ شہری علاقوں میں نقل مکانی نے عالمی معیشت، ماحول، اور پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کی دو ارب سے زیادہ آبادی ان شہروں میں رہتی ہے جہاں 2040 تک درجہ حرارت میں 0.5 ڈگری سیلسیئس تک اضافہ متوقع ہے، جو موسمی آفات کی شدت میں اضافہ کرے گا۔
اقوام متحدہ کے ادارے “یو این ہیبیٹیٹ” کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہری علاقوں کو موسمی شدت سے بچانے کے لیے ہر سال 4.5 سے 5.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، لیکن فی الحال اس مقصد کے لیے صرف 831 ارب ڈالر دستیاب ہیں جو کہ کافی کم ہیں۔ “یو این ہیبیٹیٹ” کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینا کلاڈیا روسبیخ نے کہا کہ اگر مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے گئے تو شہروں کی غریب آبادیوں کی صحت اور زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
روس بیخ نے کہا کہ اگرچہ شہروں کو موسمیاتی مسائل کے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات ناکافی ہیں، لیکن سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد پہلے ہی شدید عدم مساوات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حساس علاقوں میں واقع غیررسمی آبادیاں اور کچی بستیاں موسمی آفات سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں، جہاں کوئی حفاظتی ڈھانچہ نہیں ہوتا۔ ان علاقوں کے لوگ قدرتی آفات کے دوران کم مدد حاصل کر پاتے ہیں۔ اس لیے ان غیررسمی آبادیاں اور غریب طبقے کی ضروریات کو پورا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اگر ترقی کے عمل میں ذمہ داری سے کام نہ لیا گیا تو دنیا کے بیشتر شہری علاقے سرسبز نہیں رہیں گے۔ 1990 میں شہروں کا مجموعی سرسبز رقبہ 19.5 فیصد تھا جو کہ 2020 تک کم ہو کر 13.9 فیصد رہ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اکثر غریب طبقے کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں، اور ان اقدامات کی وجہ سے زمین کی قیمتوں میں اضافے یا غریب بستیوں کی تباہی جیسے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔
پیرس معاہدہ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
2015 کے پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ عالمی سائنسدانوں نے بار بار خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت کا اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہوں گے اور ان تبدیلیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر درجہ حرارت میں متوقع اضافے کی شدت توقعات سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2050 تک عالمی درجہ حرارت میں 2 سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت تک درجہ حرارت میں 1.28 ڈگری سیلسیئس اضافہ ریکارڈ ہو چکا ہے، اور اگر موجودہ موسمی تبدیلیوں پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ترقی قدرتی نظام کو مزید متاثر کرے گی اور سمندری سطح میں اضافہ ساحلی علاقوں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے شہر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے کس طرح متاثر ہوں گے؟
امریکی ماہرین موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ 2080 تک دنیا کے 4,000 سے زائد شہروں میں درجہ حرارت 5 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے، جن میں پاکستان کے کئی بڑے شہر شامل ہیں۔ میری لینڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 2080 تک پاکستان کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات بہت واضح ہوں گے۔
کراچی کے بارے میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ آئندہ 60 سالوں میں کراچی میں گرمی 3.3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہوگی اور موسم گرما 18.2 فیصد خشک ہو گا۔ اس کے علاوہ، موسم سرما میں 5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ بارشوں میں کمی متوقع ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پایا گیا تو کراچی میں درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سیلسیئس اضافے کی توقع ہے، اور بارشوں میں 17.3 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
مستقبل کے لیے اقدامات کی ضرورت
“یو این ہیبیٹیٹ” کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف شہروں میں سرسبز رقبے میں اضافہ کیا گیا ہے، اور کئی شہروں نے نقل و حمل، توانائی کی فراہمی اور دیگر بنیادی ضروریات کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی شدت اور اس کے اثرات سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں حکومتوں اور شہری اداروں کو مشترکہ طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئے منصوبے، وسائل اور حکمت عملیوں کی فوری ضرورت ہے تاکہ شہروں میں رہنے والی آبادی کو اس کے اثرات سے بچایا جا سکے اور مستقبل میں ماحولیاتی آفات کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔