مضامین

قدرتی نظام کی تباہی اور انسانی ترقی کا المیہ

 تحریر : ا سلم ملّاح

ناکارہ آبپاشی کے نظام اور ناکارہ پالیسیوں کی وجہ سے ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں

برساتیں صدیوں سے ہو رہی ہیں، یہ قدرت کا نظام ہے۔ کبھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو کبھی کم، اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔ پہلے زمانے میں جب ترقی کم تھی، نہ سڑکیں تھیں، نہ راستے، اور نہ ہی بڑے پیمانے پر نالے۔ لیکن اب جتنی زیادہ ترقی ہوئی ہے، اتنا ہی نظام بگڑ چکا ہے۔ جیسے ہی برسات شروع ہوتی ہے، آبپاشی کا نظام انتہائی خراب ہو جاتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کے ہاتھوں بگاڑا گیا ہے، تو یقیناً قدرت اپنا حساب کتاب لے گی۔

اس ترقی میں ہم خود بھی قصوروار ہیں۔ درختوں کی کٹائی، کوئلے کی نکاسی، فیکٹریوں اور گاڑیوں کی بڑھتی تعداد، سب مل کر موسمیاتی تبدیلیوں پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔ جس سے برساتوں کے معمولات میں بھی فرق آیا ہے۔ پہلے بارشوں کا ایک مخصوص وقت ہوتا تھا، جو اب بدل چکا ہے۔ پہلے مئی، جون اور اگست کے درمیان بارش ہوتی تھی، جس سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا تھا کیونکہ نہریں وقتاً فوقتاً پانی چھوڑتی تھیں اور زمینوں کو بارش کی ضرورت ہوتی تھی۔ سم نالوں اور نہروں میں اتنی گنجائش ہوتی تھی کہ پانی محفوظ کیا جا سکے۔ مگر اب قدرتی نظام بھی ختم ہو چکا ہے، نہریں خشک ہو گئی ہیں اور سارے دریاؤں کے نیچے دب چکی ہیں۔

ہم پیسے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اور اس کا سارا بوجھ ان وسائل پر پڑ رہا ہے جن کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ جب سارا سال خشک سالی ہوتی ہے، تو پانی نہیں چھوڑا جاتا، اور جیسے ہی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو سارا پانی بہا دیا جاتا ہے، جس سے کینال اور سم نالے ٹوٹ جاتے ہیں۔ آبپاشی کا نظام مزید نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، خصوصاً ساحلی علاقوں میں جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے، تو دریائے سندھ کا پانی کوٹری سے سمندر میں چھوڑا جاتا ہے۔ اور جب برساتوں کا پانی زیادہ ہو جاتا ہے، تو دریا کا پانی بھی کینالوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس صورتحال میں عالمی فنڈنگ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگر یہ فنڈنگ بند ہو جائے تو کوئی گاؤں سیلاب میں نہیں ڈوبے گا۔ کیوں کہ یہ فنڈنگ سیلابوں میں مدد کے لیے دی جاتی ہے، لیکن اس کا کوئی مستقل دیکھ بھال نہیں کیا جاتا۔ حکومت نے بھی ایک ایسی چال ڈھونڈ لی ہے جس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ کو کوئی دکھ یا پریشانی نہیں، ملک خسارے میں جا رہا ہے اور عوام کو ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حکمران تو پیسے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

سم نالوں اور نہروں کی کھدائی اور ان کی بحالی کے نام پر جو ایل بی او ڈی کے پیسے آتے ہیں، وہ صرف ایک دھوکہ ہے۔ یہ سب دکھاوے کے منصوبے ہیں، جن سے ملک کا نظام بگاڑ دیا گیا ہے۔ عوام پہلے سے ہی پریشان ہے اور اب اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے دبایا جاتا ہے یا اس کی شکایت آگے تک نہیں پہنچتی۔ اس سارے مسئلے کو دیکھتے ہوئے نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اور عالمی فنڈنگ کو صحیح سمت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سندھ کے لوگ ہر بارش کے آغاز پر خوف کے سائے میں جیتے رہیں گے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے پیچھے بڑی بڑی کمپنیاں اور ملک ہیں، اور ان کے کیے کی سزا ہماری زمین اور عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے ہم مشکلات کا شکار ہیں، اور ماحولیاتی نظام کی خرابی کے باعث ہمارا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ عوام کہاں جائے؟ نہ وہ برسات کو برداشت کر سکتی ہے اور نہ طوفان کو۔ ناکارہ آبپاشی کے نظام اور ناکارہ پالیسیوں کی وجہ سے ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

برساتیں صدیوں سے ہو رہی ہیں، یہ قدرت کا نظام ہے۔ کبھی زیادہ بارش ہوتی ہے تو کبھی کم، اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا ہے۔ پہلے زمانے میں جب ترقی کم تھی، نہ سڑکیں تھیں، نہ راستے، اور نہ ہی بڑے حکمران تو پیسے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

Leave a Comment