رپورٹس

فضائی معیار،اسموگ اور پیٹرول کے تعلق پر پریس کانفرنس

فروزاں رپورٹ

عارضی سبز لاک ڈاؤن جیسے اقدامات پاکستان کی فضائی آلودگی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

کلائیمٹ ایکشن سینٹر کے روح رواں اور ماحولیاتی ماہر یاسر حسین نے محمود عالم خالد اور آفاق بھٹی کے ساتھ کراچی پریس کلب میں پاکستان میں ہر سال تیزی سے بڑھتے ہوئے اسموگ کے مسئلے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ آلودگی کے زہریلے مرکب سے بھری ہوئی ہے اور اس میں گاڑیوں کے دھوئیں کا کردار بنیادی ہے۔ پیٹرول کے دھوئیں کا اسموگ میں کراچی کا 60 فیصد اور لاہور کا 80 فیصد حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی ٹرانسپورٹ میں جو پیٹرول اور ڈیزل استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی کوالٹی انتہائی خراب ہے۔ اس نکلنے والے زہریلے ذرات ہمیں نظر نہیں آتے ہیں لیکن وہ انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ باریک ذرات ہمارے پھیپھڑوں اور خون میں داخل ہو کر کینسر، سانس کی بیماریوں اور قلبی مسائل کے خطرات کو بڑھاتے ہیں اور ہماری زندگی کے معیار کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ ہماری عمارتوں اور سڑکوں کو سیاہ اور خطرناک راکھ سے ڈھانپ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) حالیہ دنوں میں خطرناک حد تک بڑھ کر 1,700 سے تجاوز کر گیا، جبکہ ملتان کا اے کیو آئی 2400 تک پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے شہر کے 14 ملین رہائشی صاف ہوا کو ترس گئے۔ حال ہی میں لاہور کا اے کیو آئی اس انتہا کو تک پہنچا کہ اس کا پی ایم 2.5 ارتکاز عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ محفوظ حد سے 40 گنا زیادہ ہو گیا۔ لیکن یہ صرف لاہور کا مسئلہ نہیں ہے، پاکستان کے مختلف شہروں، کراچی سے ملتان اور پشاور تک، آلودگی اور دھند کے نتیجے میں صورتحال ہر گذرتے سال کے ساتھ سنگین سے سنگین ہوتی چلی جا رہی ہے۔

سی اے سی کے ڈائریکٹر یاسر حسین دریا کا کہنا تھا کہ اندازوں کے مطابق ہوا کی آلودگی پاکستان میں ہر سال 100,000 سے زائد اموات کا سبب بنتی ہے، اور یہ تعداد ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان عالمی ادارہ صحت کے رہنمائی اصولوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کے نتیجے میں اوسطاً زندگی کی متوقع مدت میں 3.89 سال کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ نظر نہ آنے والا قاتل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے ساتھ خیبر پختونخوا، اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشیوں کی زندگیوں پر ہولناک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اگر موجودہ فضائی آلودگی کی سطح پر قابو نہ پایا گیا تو لاکھوں افراد کو 3.89 سال تک زندگی کی مدت میں کمی کا سامنا کر سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عارضی سبز لاک ڈاؤن جیسے اقدامات پاکستان کی فضائی آلودگی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ دو اسٹروک گاڑیوں پر پابندی یا بیرونی سرگرمیوں پر پابندی جیسے سطحی اقدامات سے صرف غیر ضروری تاخیر ہو رہی ہے، جب تک بنیادی مسائل جیسے کہ گاڑیوں کا دھواں، صنعتی آلودگی، اور فضلہ جلانے کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور فضائی آلودگی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی، اس وقت تک یہ صورتحال برقرار رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک گاڑیوں کی طرف منتقلی، قابل تجدید توانائی پر منتقل ہونا، اور اخراج کے سخت معیارات کا نفاذ فوری طور پر ضروری ہے۔ گاڑیوں سے پاک شہری زونز قائم کرنا جو صرف الیکٹرانک ٹرانسپورٹ اور بائیکوں کے لیے مخصوص ہوں، اخراج کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے اور ساتھ ہی صحت مند اور محفوظ شہروں کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں یاسر حسین نے کہا کہ اسموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ان کا تناسب صرف 13 فیصد بنتا ہے اور جو 60 اور 80 والے فیکٹر ہیں، یعنی ٹرانسپورٹ سے نکلنے والا دھواں، اس کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا جا رہا۔ جب تک ہم اصل مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک یہ مسئلہ جس نے پاکستان کے کروڑوں عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں، حل نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کے موسم میں پاکستان سے زیادہ ہوا ہندوستان کی جانب جاتی ہے لیکن کبھی کبھی ہندوستان سے بھی خراب ہوا پاکستان آتی ہے۔ ہندوستانی پنجاب میں جو فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، ان کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ ہریانہ اور یوپی سے لے کر پوری اس بیلٹ تک جاتے ہیں جہاں زراعت ہوتی ہے اور آبادی بھی ان علاقوں میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ ان ہواؤں کا رخ پاکستان کی طرف بہت کم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسموگ کی بنیادی وجہ ترانسپورٹ کا زہریلا دھواں ہے جس کا تناسب 60 سے 80 فیصد تک ہے، جس سے بچنے کے لیے ہمیں الیکٹرانک وہیکل پر لازمی جانا ہوگا اور اس کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے ہوں گے اور دنیا اس جانب جا رہی ہے۔

شجر کاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ درخت ایک ایسی نعمت ہے جو ہمیں گرمی سے بچانے کے ساتھ درجہ حرارت میں بھی کمی لاتی ہے اور کاربن کو جذب کر کے ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں، لیکن گاڑیوں کے دھوئیں سے کچھ اور زہریلی گیسیں بھی خارج ہوتی ہیں جن میں کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن سلفر ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں جو نہ صرف انسانوں بلکہ درختوں کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہیں۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ درخت گاڑیوں کا دھواں صاف کر دیں گے تو یہ غلط ہے کیوں کہ وہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف کرے گا، دیگر زہریلی گیسیں ان درختوں کو بھی خراب کر دیں گی اور اس کی مثال اسلام آباد ہے، جہاں بے شمار درختوں کے باوجود وہاں کی ہوا کی کوالٹی پورے سال کراچی سے زیادہ خراب رہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صاف توانائی کی جانب جانا ہوگا جس میں کوئی چیز جل نہیں رہی ہو، اور ہماری تمام ٹرانسپورٹ کو الیکٹریک پر جانا ہوگا۔ یہی اس کا پائیدار حل ہے۔

Leave a Comment