رپورٹس

مضر صحت گیسوں کا اخراج 2023 میں نئی بلندیوں پر رہا

رپورٹ

2023 میں مضر صحت گیسوں کا اخراج نئی بلندیوں پر پہنچا: ایک تاریخی پہلا موقع۔

عالمی موسمیاتی ادارے نے گزشتہ سال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ریکارڈ اضافہ رپورٹ کیا ہے اور سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے ممالک سے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ادارے کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 سے 2023 تک گرین ہاؤس گیسوں کے ماحول پر گرم اثرات میں 51.5 فیصد اضافہ ہوا، جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا حصہ 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک یہ گیسوں کا اخراج جاری رہے گا، عالمی حدت بھی بڑھتی رہے گی۔ اگر آج ان گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے تو بھی ان کے اثرات کئی دہائیوں تک برقرار رہیں گے۔

عالمی موسمیاتی ادارہ (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے مسلسل اخراج اور اس کے نتیجے میں عالمی حدت کے اثرات سے بچنے کے لیے بڑی صنعتی معیشتوں کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔ یہ اپیل اس وقت کی گئی ہے جب عالمی رہنما آئندہ ماہ آزربائیجان کے دارالحکومت باکو میں عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) میں شرکت کے لیے جمع ہونے والے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش بار بار متنبہ کر چکے ہیں کہ موسمیاتی بحران کو نظرانداز کرنے کی بھاری انسانی قیمت چکانا پڑے گی۔

طویل المدتی نقصان

ڈبلیو ایم او کے نائب سیکرٹری جنرل ڈاکٹر اوکسانا تاراسووا نے کہا کہ کرہ ارض کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کا جو تیز رفتار اضافہ ہو رہا ہے، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ چونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں طویل عرصے تک موجود رہتی ہے، اس لیے جو عالمی حدت کا اضافہ ہو رہا ہے وہ کئی سالوں تک واپس نہیں ہو سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت میں معمولی اضافے سے بھی شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس سے گلیشیئرز کا پگھلاؤ تیز ہو جاتا ہے، سمندری سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور سمندر کی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے موسمی شدت کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا اثر لوگوں، حیاتیات اور معیشتوں پر پڑتا ہے۔

گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کا ایک اور نتیجہ جنگلات میں آگ لگنا اور موسمی کیفیت میں منفی تبدیلیاں جیسے کہ ال نینو کے اثرات کا بڑھنا ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی کی ضرورت

ڈبلیو ایم او کے حالیہ گرین ہاؤس گیس بلیٹن میں سائنسی حوالوں کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ فضائی کرہ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ 2004 میں فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 377.1 پی پی ایم تھی، جو 2023 میں بڑھ کر 420 پی پی ایم تک پہنچ گئی ہے، یعنی صرف دو دہائیوں میں اس میں 42.9 پی پی ایم یا 11.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ عالمی موسمیاتی بحران میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

معدنی ایندھن کا مسئلہ

ڈبلیو ایم او کی اعلیٰ سطحی سائنسی افسر ڈاکٹر اوکسانا تاراسووا نے کہا کہ گزشتہ سال کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ فضاء میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ آج جتنی بڑی مقدار میں یہ گیسیں فضاء کا حصہ بن رہی ہیں، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پانچ لاکھ سال پہلے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 پی پی ایم تھی، جب کرہ ارض کا درجہ حرارت آج سے 3-4 ڈگری زیادہ تھا، اور سطح سمندر 10-20 میٹر بلند تھا۔

ڈاکٹر تاراسووا نے امید ظاہر کی ہے کہ عالمی رہنما اس صورتحال کی سنگینی کو سمجھیں گے اور اس حوالے سے بہتری لانے کے لیے اپنے وعدوں پر عمل کریں گے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاپ 29 کے دوران ان وعدوں پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے ممالک کو اپنی معیشت میں معدنی ایندھن کے استعمال میں کمی لانا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کا تحفظ کیا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ آنے والے عشروں میں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات بھی جاری رکھنے چاہیے تاکہ مستقبل میں عالمی حدت میں کمی لائی جا سکے۔ تاہم فوری اقدامات اٹھانا اس مسئلے کا پائیدار حل ہے۔

Leave a Comment