مائرہ ممتاز (محقق کلائیمٹ ایکشن سینٹر)

یہ شہر ابھی مکمل طور پر برباد نہیں ہوا۔ امید ابھی باقی ہے، سایہ ابھی واپس آسکتا ہے۔
کراچی کا ماحولیاتی مسئلہ صرف درختوں کی کٹائی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دردناک المیہ ہے جو ہماری زندگیوں، ہماری زمین اور ہمارے مستقبل سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ شہر، جو کبھی چھاؤں، سبزہ اور زندگی سے بھرپور تھا، اب کنکریٹ کے ڈھانچوں، گرم سڑکوں اور آلودہ ہوا میں کھو رہا ہے۔ یہ محض درخت نہیں کٹ رہے، یہ ہمارے خوابوں، ہماری سانسوں، اور ہماری پہچان کو چھینا جا رہا ہے۔ ہر درخت، جو بے دردی سے گرایا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے دل کی دھڑکن کو روک رہا ہو۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں درختوں کی تعداد پہلے ہی کم تھی، ان کی مزید کٹائی گرمی اور فضائی آلودگی کو خطرناک حد تک بڑھا رہی ہے۔ اس شہر کی گرمی، جو پہلے ہی ناقابل برداشت ہو رہی ہے، قدرتی سایوں کے خاتمے کے باعث اور بھی شدید ہو جائے گی۔ وہ لوگ جو 2015 کی ہیٹ ویو کو یاد کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ گرمی کی شدت انسان کو کیسے بے بس کر دیتی ہے۔ ہم نے اپنے پیاروں کو اس وقت کھویا، اور اب بھی خطرہ وہیں منڈلا رہا ہے۔ کیا ہم واقعی ایک اور ایسے دن کا انتظار کر رہے ہیں؟
درخت صرف آکسیجن فراہم کرنے والے نہیں بلکہ ماں جیسا تحفظ دینے والے ہوتے ہیں، جو گرمی میں اپنی چھاؤں بچھا دیتے ہیں، آلودگی کو اپنی گود میں سمیٹ لیتے ہیں، اور ہمارے شہر کو زندگی سے بھرپور بناتے ہیں۔ لیکن ہم نے ان درختوں کو، ان محافظوں کو، ان دوستوں کو ترقی کے نام پر قربان کر دیا ہے۔ کراچی کے سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے دوران، درختوں کو ایسے گرایا گیا جیسے ان کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ یہ درخت جنہوں نے نسلوں تک ہمیں تحفظ دیا، وہ آج بے حیثیت ہو گئے ہیں۔
ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ ایک اہم مثال ہے، جہاں جدید ٹرانسپورٹ کا خواب دکھا کر درختوں کی کٹائی کی گئی۔ یونیورسٹی روڈ اور دیگر علاقوں سے سبزے کو ختم کر دیا گیا، اور اس کے بدلے کنکریٹ اور دھواں دیا گیا۔ یہ کنکریٹ کے جنگل شاید ہمیں سہولت دے سکیں، لیکن ان کے نتیجے میں بڑھتی گرمی، فضائی آلودگی اور ماحولیاتی نقصان کی قیمت کون چکائے گا؟ کیا ہمارا جسم اور ہماری سانسیں اس قیمت کو برداشت کر پائیں گی؟
یہ صرف ایک شہر کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری اقدار اور ترجیحات کا آئینہ ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف، خاص طور پر ایس ڈی جی 11 اور ایس ڈی جی 13، ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ترقی صرف عمارتوں یا سڑکوں سے نہیں ہوتی بلکہ ماحول کے تحفظ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہاں، ترقی کے نام پر ہمارا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔ درختوں کو کاٹ کر ہم اپنے بچوں کے سایوں، صاف ہوا، اور جینے کی خوشیوں کو قربان کر رہے ہیں۔
اس مسئلے کا حل ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ہم سب کو مل کر قدم اٹھانا ہوگا۔ یہ صرف حکومت کا فرض نہیں؛ ہم شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زمین کو بچانے کے لیے آواز اٹھائیں۔ پودے لگائیں، اپنے محلوں کو سبز بنائیں، اور حکومتی منصوبوں میں ماحولیاتی توازن کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ ہر درخت جو آپ لگائیں گے، وہ صرف زمین کا زیور نہیں ہوگا بلکہ ایک امید ہوگی کہ یہ شہر دوبارہ سبز ہوسکتا ہے۔
آئیں، ترقی اور قدرت کے بیچ ایک متوازن راستہ تلاش کریں۔ کراچی کو اس کی کھوئی ہوئی پہچان واپس دلائیں۔ ہم وہ شہری ہیں جو ماضی کے سایوں، ماں کی گود جیسے درختوں، اور وہ یادیں جو قدرت نے ہمیں دیں تھیں، واپس لا سکتے ہیں۔ یہ شہر ابھی مکمل طور پر برباد نہیں ہوا۔ امید ابھی باقی ہے، سایہ ابھی واپس آسکتا ہے۔
سوچیے، وہ دن جب یہ شہر دوبارہ سبز ہوگا۔ جب بچے درختوں کے نیچے کھیلیں گے، لوگ سایہ دار سڑکوں پر سکون سے چلیں گے، اور ہم سب اس شہر کو دوبارہ زندگی سے بھرپور دیکھیں گے۔ یہ ممکن ہے، اور یہ خواب ہم سب کو مل کر پورا کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک سبز کراچی ہی ایک زندہ کراچی ہوگا۔