تحریر : شائرین رانا

ہم گرین ہاوس گیسوں کے ایکسیلیریٹر پر پاوں رکھے ہوئے ہیں”:گیون شمٹ”
2025 میں داخل ہوچکے ہیں اور اس وقت ملک بھر میں سردی جوبن پر ہے اور کچھ تو گرمی کی حرارت کو یاد کررہے ہیں مگر انھیں یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہ سردی اور ٹھنڈی ہوائیں نجانے آئندہ سالوں میں ہم محسوس بھی کر سکیں یا نہیں کیوں کہ دنیا کے سائنسدان تو ایسی بھیانک حقیقت بیان کررہے ہیں جن کو سوچ کر ہی دل کرتا ہے کہ سرد رتوں کے یہ پل یہیں ٹھہر جائیں۔نیشنل جیوگرافک کی ویب سائٹ پر میڈی اسٹون ایک سائنس کی ماہرصحافی کی تحقیق پر مبنی رپورٹ میں شائع ہوئی ہے۔
ان کے مطابق زمین مسلسل درجہ حرارت کے ریکارڈ توڑ رہی ہے، لیکن اگر آپ کو ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے تو آپ شاید اس لطیف ذہنی چال کا سامنا کر رہے ہیں۔ سال کے اختتام کے قریب سائنسدان ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں کہ ایک تشویشناک موسمیاتی سنگ میل قریب ہے: 2024 ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم سال ہونے کا تقریباً یقین ہے۔
کئی معروف اداروں کے مطابق یہ پہلا سال بھی ہوگا جب پیرس موسمیاتی معاہدے میں طے شدہ 1اعشاریہ5 ڈگری سیلسیس کے عالمی درجہ حرارت کے ہدف کو عبور کر لے گا لیکن آنے والے سالوں میں آپ یقینی طورپر 2024 کو خاص طور پر گرم سال کے طور پر یاد نہیں رکھیں کیوں کہیہ آپ کی باقی زندگی کے سب سے ٹھنڈے سالوں میں سے ایک ہوگاکہ جب تک انسانیت فوسل ایندھن جلاتی رہے گی اور زمین کو گرم کرتی رہے گی تو آپ کا مستقبل خود موجودہ وقت کو پرسکون موسم، برفانی سردیوں اور معتدل درجہ حرارت کے دور کے طور پر یاد کرے گا۔ آج پیدا ہونے والے بچوں کیلیے مستقبل کے گرم تر اور طوفانی موسمی حالات معمول محسوس ہوں گے۔
ناسا کا گوڈارڈ انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس اسٹڈیز جو ہزاروں موسمی اسٹیشنوں، سمندری بویوں اور جہاز پر مبنی مشاہدہ گاہوں سے حاصل کردہ درجہ حرارت کا عالمی ریکارڈ مرتب کرتا ہے سے تعلق رکھنے والے معروفموسمیاتی ماہرگیون شمٹ کہتے ہیں ایک سال پہلے موسمیاتی سائنسدان ایک نئے اور ڈرامائی درجہ حرارت کے ریکارڈ کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ 2023 نہ صرف تقریباً 175 سالوں میں سب سے زیادہ گرم سال تھا بلکہ یہ 2016 کے مقابلے میں تقریباً 0.15 ڈگری سیلسیس زیادہ گرم تھاجو کہ پہلے سب سے زیادہ گرم سال کا ریکارڈ تھا۔
سیاروی اصطلاحات میں یہ ایک بڑی چھلانگ سمجھی جاتی ہے۔ 2024 کا زیادہ گرم ہونا تقریباً یقینی ہے۔گزشتہ دو سال کچھ حد تک سپرچارجڈ رہے ہیں۔ شمٹ کے مطابق درجہ حرارت 1970 کی دہائی سے بتدریج بڑھ رہا ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران تیزی سے بڑھا ہے۔2023 اور 2024 واقعی نمایاں ہیں۔جزوی طور پریہ حالیہ ایل نینو کی وجہ سے ہے جوایک ایسا واقعہ ہے جس میں بحر الکاہل کے گرم ہونے سے دنیا بھر میں درجہ حرارت بڑھتا ہے اور موسمیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شمٹ کا کہنا ہے کہ یہ انسانی سرگرمیوں کے سبب بننے والی عالمی گرمی کے تیز ہونے کی علامت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ”ہم گرین ہاوس گیسوں کے ایکسیلیریٹر پر پاوں رکھے ہوئے ہیں“۔کسی بھی صورت میں جب تک انسان ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرتے رہیں گے درجہ حرارت بڑھتا رہے گا۔
شمٹ کہتے ہیں کہ اگلی دہائی کے اندر، دنیا ممکنہ طور پر1.5ڈگری سیلسیس کے وارمنگ حد کو مستقل طور پر عبور کر لے گی۔وہ کہتے ہیں کہ موجودہ موسمیاتی پالیسیاں 2100 تک تقریباً 3 ڈگری سیلسیس وارمنگ کی طرف لے جا رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ سائنسدان توقع کررہیہیں کہ ہم شدید بارش، انتہائی گرم دن اور جنگلاتی آگ اور خشک سالی جیسی موسمیاتی تباہیوں میں اضافہ دیکھتے رہیں گے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ مظاہر زیادہ شدید اور طاقتور ہو جائیں گے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر تیزی سے بڑھتے ہوئے موسمیاتی بحران پر نظر رکھنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے موسمیاتی معاہدے میں درجہ حرارت کو5.1 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا موجودہ صورتحال میں اس ہدف کو برقرار رکھنا بنیادی طور پر ناممکن ہو چکا ہے۔ 2024 میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس حوالے سے ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2022 اور 2026 کے درمیانی عرصہ میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جانے کے امکان میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہو چکا ہے – جب کہ کچھ ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال میں درجہ حرارت کا ہدف1.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ناگزیر ہے اور وہ بھی اس امید کے ساتھ کہ اس صدی کے آخر تک ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈکو ختم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف تک واپس لایا جائے گا۔