مضامین

شہد: موسمیاتی تبدیلی کی زد میں

خلیل رونجھو

ببول، بیر اور نیم جیسے درخت جو شہد کی مکھیاں پالنے کے لیے اہم ہیں، اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔

شہد قدرت کی عطا کردہ ایک نایاب نعمت ہے، جسے صدیوں سے نہ صرف غذا بلکہ شفا کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا میٹھا ذائقہ اور خوشبو دل کو تسکین دیتی ہیں، اور اس میں موجود بے شمار طبی فوائد انسان کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ شہد اپنی غذائی خصوصیات کے ساتھ ساتھ انسانی تہذیب کا ایک قدیم حصہ ہے، جس کا ذکر مختلف مذاہب، ثقافتوں اور طبی علوم میں پایا جاتا ہے۔ قدرت کے اس خزانے کو محفوظ رکھنا اور اس کی اہمیت کو سمجھنا ہمارے ماحول اور صحت دونوں کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ نہ صرف مکھیوں کی محنت کا نتیجہ ہے بلکہ زمین کے حیاتیاتی توازن کی علامت بھی ہے۔شہد کو سینکڑوں سالوں سے دنیا کے مختلف حصوں میں بطور دوا استعمال کیا جا رہا ہے، اور اسے ایک بہترین غذا بھی سمجھا جاتا ہے۔ شہد کو ایک صحت مند ناشتہ تصور کیا جاتا ہے، اور اس کے باقاعدہ استعمال سے صحت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔ شہد کو اس کی طبی خصوصیات کی بنیاد پر”سپر فوڈ” کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف غذائیت سے بھرپور ہے بلکہ اس میں بے شمار صحت بخش فوائد بھی موجود ہیں۔شہد دو طریقوں سے حاصلکیاجاتاہے: قدرتی اور فارمنگ۔ قدرتی شہد جنگلی مکھیوں کے چھتوں سے حاصل ہوتی ہے اور خالص ذائقہ رکھتی ہے، مگر مقدار کم ہوتی ہے۔ فارمنگ میں مکھیاں پال کر شہد تیار کیا جاتا ہے، جسے ایپی کلچر کہا جاتا ہے، اور یہ تجارتی مقاصد کے لیے زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔ دونوں طریقے شہد کی پیداوار میں اہم ہیں، مگر ماحولیاتی توازن اور مکھیوں کے تحفظ کی ضرورت ہے۔

بیلہ بلوچستان کا ایک تاریخی شہر ہے جو زراعت اور مالداری کے حوالے سے مشہور ہے، اور اپنی مخصوص شہد کی پیداوار کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ صدیوں سے ببول، بیر،نیم سمیت دیگر درختوں سے شہد اکٹھا کرتے ہیں اور پہاڑوں پر قدرتی شہد کے چھتوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ بیلہ کا شہد نہ صرف ذائقے میں لاجواب ہے بلکہ اپنے طبی فوائد کے لیے بھی مشہور ہے۔ چند سال پہلے تک بیلہ کا شہد دو ہزار روپے فی لیٹر کے حساب سے بازار میں دستیاب تھا، لیکن اب اس کی دستیابی اتنی کم ہو گئی ہے کہ بمشکل پانچ ہزار روپے میں ملتا ہے، اور وہ بھی نایاب سمجھا جاتا ہے۔
مقامی کسان اور مزدور بیلہ کی معیشت میں شہد کی پیداوار کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ببول، بیر اور نیم کے درختوں کا شہد خاص طور پر اپنی اعلیٰ کوالٹی اور خالص پن کے لیے مشہور ہے۔ یہ شہد روایتی طریقوں سے جمع کیا جاتا ہے، جس میں مقامی لوگ درختوں یا پہاڑوں پر موجود قدرتی چھتوں سے احتیاط کے ساتھ شہد اتارتے ہیں۔ اس شہد کی فروخت ان لوگوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی، اور انسانوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے اس صنعت کو شدید متاثر کیا ہے۔

شہد کی مکھیوں کی تحقیق سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شہد کی پیداوار میں 60 سے 70 فیصد کمی آگئی ہے۔ ملک میں جنگلات کی کمی اور بڑھتے درجہ حرارت نے شہد کی مکھیوں کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ صورتحال مکھیوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے موضوع پر توجہ دلا رہی ہے۔ مکھیوں کی تحقیق سے وابستہ ماہرین کے مطابق گزشتہ سالوں سے شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے شہد کی مکھیوں کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جبکہ شہد کی پیداوار میں 60 سے 70 فیصد کمی بھی آگئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جنگلات کی کمی اور بڑھتے درجہ حرارت نے زمین پر قدرت کی محافظ شہد کی مکھیوں کی تمام اقسام کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں دوبارہ سے شہد کی پیداوار کو بڑھایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلیوں نے بیلہ کے قدرتی ماحول پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ غیر متوقع بارشیں، شدید گرمی اور خشک سالی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے درختوں اور پھولوں کی نشوونما کو نقصان پہنچایا ہے۔ ببول، بیر اور نیم جیسے درخت جو شہد کی مکھیاں پالنے کے لیے اہم ہیں، اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے، یہاں تک کہ لسبیلہ میں ٹمبر مافیا نے چھار جو کہ ایک جنگلی پودہ ہے، اس کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور بڑے پیمانے پر کٹائی کا عمل جاری ہے، اور روزانہ سینکڑوں لکڑیوں کی لوڈ گاڑیاں کراچی و کوئٹہ کی طرف روانہ ہوتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے نہ صرف شہد کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اس کی کوالٹی بھی متاثر ہو رہی ہے۔علاوہ ازیں، زراعت میں کیمیائی کھادوں اور زہریلی پیسٹی سائیڈز کے استعمال نے شہد کی مکھیوں کی زندگی کو براہ راست خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ مکھیاں جب ان زہریلے پھولوں پر بیٹھتی ہیں تو یا تو مر جاتی ہیں یا ان کے دماغی نظام پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ وہ چھتے کا راستہ بھول جاتی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان مکھیوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جو شہد کی کمی کی بڑی وجہ ہے۔بیلہ کے پہاڑوں پر موجود قدرتی چھتے، جو ماضی میں شہد کے اہم ذرائع تھے، اب غیر ذمہ دارانہ کٹائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ مقامی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ شہد جمع کرنے کے دوران پورے چھتے کو تباہ کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مکھیاں بے گھر ہو جاتی ہیں اور ان کی آبادی ختم ہو جاتی ہے۔ اس عمل نے نہ صرف مقامی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ بیلہ کے قدرتی حسن اور ماحولیات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

محمد اکبر بلوچ جو کہ بیلہ میں گزشتہ دس سالوں سے شہد کا کاروبار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں کی نسبت بیلہ میں شہد کی پیداوار میں نصف کمی واقع ہوئی ہے، جو ملتی ہے وہ بھی مہنگی ملتی ہے یا پھر ملاوٹ شدہ۔ اکبر کا کہنا ہے کہ پہلے گاؤں اور پہاڑوں میں رہنے والے نوجوان کسان اپنے زمینوں کے درختوں یا پھر پہاڑوں سے شہد اکٹھا کرکے لاتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد میں بہت حد تک کمی ہو چکی ہے۔

محمد امین رونجھو جو کہ علاقہ وانگ کے زمیندار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ بارانی پانی کے ذریعے زراعت کرتے تھے، اب پانی کے حصول کے لیے ہر ایک نے سولر بور کا سہارا لیا ہے اور اب وہ پہلے والی فصلیں نہیں بوئے جاتے، جس پر کیمیائی کھادیں استعمال نہیں ہوتیں۔ اب زمیندار زیادہ کمائی کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ زمین داری کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی فصلیں لگاتے ہیں، جس کے لیے یہ کیمیکلز، اسپرے اور دیگر زرعی ادویات کا سہارا لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہد کی مکھیاں تو ویسے ختم ہو ہی چکی ہیں، علاقے سے تتلیاں، طوطے اور کوے و دیگر پرندے و حشرات بھی ختم ہو گئے ہیں، جو کہ ایک المیہ ہے۔ بیلہ شہر میں کیمیائی کھادوں کی دکانوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
یاسر عمر نامی کسان نے بتایا کہ ماضی میں شہد وافر مقدار میں دستیاب تھی، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی کٹائی، اور زرعی ادویات کے اسپرے کے باعث اب شہد نایاب ہو چکی ہے۔

شہد کی مکھیاں زیادہ تر پہاڑی علاقوں کی طرف منتقل ہو رہی ہیں، جہاں انہیں کچھ بہتر ماحول ملتا ہے، لیکن وہاں بھی قدرتی درختوں کی کٹائی سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ یاسر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے شہد کی مکھیوں کے چھتوں کو طوفانی ہواؤں، غیر موسمی بارشوں اور شدید گرمی سے تباہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، زرعی علاقوں میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کے کاروبار میں 90 فیصد کمی آئی ہے، اور شہد کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ایک کلو شہد 1500 روپے میں ملتی تھی، لیکن اب یہی شہد 4000 سے 5000 روپے میں بھی دستیاب نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حالات میں شہد بیچنے میں بہت مشکلات پیش آ رہی ہیں، کیونکہ مقدار کم اور قیمت زیادہ ہونے کے باعث گاہک ناراض ہو رہے ہیں، اور ملاوٹ کے بڑھتے رجحان نے اعتماد بھی متاثر کیا ہے۔یاسر عمر کا مزید کہنا تھا کہ شہد کی پیداوار بڑھانے اور کاروبار کو بہتر کرنے کے لیے قدرتی ماحول کی حفاظت ضروری ہے۔ جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگانی چاہیے، قدرتی پانی کے چشموں کی حفاظت کرنی چاہیے، اور زرعی ادویات کے اسپرے کو سیزن میں محدود کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ وہ قدرتی وسائل کی حفاظت کریں تاکہ قدرتی چیزیں نایاب نہ ہوں۔

محمد یونس رونجھو جو کہ علاقے کے سماجی کارکن ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بیلہ کی شہد کی پیداوار کو بچانے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ درختوں کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی، اور کیمیائی کھادوں کے استعمال کو کم کرنا اس مسئلے کے حل کے لیے اہم ہیں۔ شہد جمع کرنے کے روایتی طریقوں میں احتیاط برتنی ہوگی تاکہ مکھیوں کی نسل بچائی جا سکے اور ان کے چھتوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ مزید برآں، عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے مقامی لوگوں کو شہد کی مکھیوں کی اہمیت اور ان کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں تعلیم دینا ضروری ہے۔

بیلہ کی شہد کی پیداوار ایک قدرتی نعمت ہے، جس کا تحفظ نہ صرف مقامی معیشت کے لیے ضروری ہے بلکہ ہماری صحت اور فطری توازن کے لیے بھی بے حد اہم ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قدرتی شہد کا کوئی نعم البدل نہیں، اور اگر ہم نے اس کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو بیلہ کا مشہور شہد ماضی کا حصہ بن سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کا روزگار اور قدرتی ماحول بھی متاثر ہو گا۔ شہد کی مکھیوں کے تحفظ اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کر سکتا ہے۔ مزید برآں، جنگلات کی کٹائی پر قابو پانا، کیمیائی کھادوں اور اسپریوں کا استعمال کم کرنا، اور مقامی سطح پر عوامی آگاہی مہم چلانا ضروری ہے تاکہ ہم شہد کی پیداوار کو دوبارہ بڑھا سکیں اور اس کے قدرتی ماخذ کی حفاظت کر سکیں۔

Leave a Comment