مضامین

اسلام آباد میں سکڑتی سردی: کیا دارالحکومت اپنی پہچان کھو رہا ہے؟

تحریر : فرحین (اسلام آباد)


اگر موثر اقدامات نہ کیے گئے، تو اسلام آباد بھی کراچی اور لاہور کی طرح سردیوں کے بغیر ایک گرم شہر بن سکتا ہے

”یہ کوئی سردی ہے؟ پندرہ سال پہلے اسلام آباد کی سردی واقعی سردی ہوتی تھی،” یہ کہنا تھا اسلام آباد کے ایک صحافی محمد العاص کا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ برسوں سے دارالحکومت کے بدلتے موسموں کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔شہری، جو دارالحکومت کے بدلتے موسموں پر افسردگی کا اظہار کر رہے تھے، نے فروزاں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے دس برسوں میں اسلام آباد کی سردیوں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ خاص طور پر 2024 کے اکتوبر اور نومبر نسبتا گرم گزرے، جو ماحولیاتی ماہرین کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

بدلتا موسم اور بدلتی حقیقتیں

اپنے شعبے میں مہارت رکھنے والیصحافی کا کہنا تھا کہ ‘ماضی میں، اسلام آباد کی سردیاں سخت اور طویل ہوتی تھیں۔ جنوری کے مہینے میں درجہ حرارت اکثر صفر یا اس سے نیچے چلا جاتا تھا، اور گہری دھند صبح دیر تک چھائی رہتی تھی۔ بارشیں زیادہ ہوتیں، جو سردی کو مزید بڑھا دیتیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں اور شہری ترقی کے نتیجے میں یہ موسم نہ صرف کم شدید ہو گیا ہے بلکہ اس کا دورانیہ بھی مختصر ہو گیا ہے۔’

50 برس سے اسلام آباد میں مقیم ریٹائرڈ سرکاری ملازم محمد ارشد نے فروزاں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1989 میں اسلام آباد میں برف باری ہوئی اور چار دن تک برف سڑکوں پر پڑی رہی۔ برف اتنی تھی کہ مارکیٹ جاتے ہوئے بھی پاوں برف میں دھنس رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ کورونا کہ بعد اسلام آباد میں سردی میں اضافہ ہوا، لیکن 2024 میں اسلام آباد میں سردی ناصرف دیر سے آئی بلکہ نومبر بہت گرم رہا۔

2023 کے دسمبر میں، اسلام آباد کے زون 5 میں سب سے کم درجہ حرارت منفی 1 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو ماضی کے مقابلے میں نسبتا معتدل تھا۔ ماہرین کے مطابق، پاکستان میں سردیوں کی شدت کم ہو رہی ہے اور ان کا دورانیہ سکڑتا جا رہا ہے۔

عالمی تناظر اور ماحولیاتی اثرات

چیف میٹیرولوجسٹ کراچی ڈاکٹر سردار سرفراز نے فروزاں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نومبر 2023، 1961 کے بعد سب سے گرم نومبر تھا۔ عالمی سطح پر بھی یہ دوسرا گرم ترین نومبر ثابت ہوا۔ اس کی ایک وجہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہے جبکہ دوسری وجہ ایل نینو کا اثر ہے، جو پیسیفک سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق، پاکستان میں درجہ حرارت ہر دہائی میں 0.18 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی اور شہری آبادکاری کا پھیلاؤ اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے بنیادی عوامل ہیں۔

تعمیرات، ترقی، اور موسمی بحران

ماہر ماحولیات ڈاکٹر نعیم پرویز نے بتایا کہ اسلام آباد سمیت پورے ملک میں سردیوں کا دورانیہ کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ ماضی میں، مری جیسے علاقوں میں دسمبر کے اواخر یا جنوری کے آغاز پر شدید برفباری شروع ہو جاتی تھی، لیکن اب موسم منتقل ہو چکا ہے اور سردی کا دورانیہ سکڑ رہا ہے۔اسلام آباد میں بڑھتی تعمیرات اور جنگلات کی کمی کو بھی اس مسئلے کی اہم وجوہات میں شمار کیا گیا۔

ڈاکٹر پرویز کے مطابق، سیمنٹ کی عمارتیں سورج کی روشنی جذب کر کے ہیٹ ٹریپ کرتی ہیں، جبکہ کالی سڑکیں تھرمل ویو میں اضافہ کرتی ہیں۔ اگر درخت موجود ہوں تو یہ گرمی کو جذب کر سکتے ہیں، لیکن سبزے کی کمی کے باعث درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں، اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں بے تحاشا تعمیرات ہوئیں، جن میں گرین ایریاز اور کھیتوں کی جگہ کنکریٹ کے جنگل ابھر آئے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی اور درختوں کی غیر موجودگی نے درجہ حرارت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

شہری زندگی کے اثرات

ڈاکٹر پرویز نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث لوگ لکڑی اور کوئلے کا استعمال کرتے ہیں، جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔ ساتھ ہی، ایئر کنڈیشنر اور گاڑیوں کے دھویں سے خارج ہونے والی گرمی شہر کے درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ شہری ترقی کی کوئی مناسب حکمت عملی موجود نہ ہونے کے باعث، اسلام آباد میں گرمی کے اثرات واضح ہو رہے ہیں۔ سورج کی شعاعیں سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارتوں میں جذب ہو جاتی ہیں، جس سے گرمی کا جال بنتا ہے اور سردی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کا ردعمل

ماہرین کا کہناہے کہ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ چیف میٹیرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز نے بتایا کہ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ہر دہائی میں 0.2 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں یہ اضافہ 0.18 ڈگری سیلسیئس ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اسلام آباد میں سردیوں کا دورانیہ مزید سکڑ جائے گا۔ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تعمیراتی منصوبوں میں گرین ایریاز کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ بڑے پیمانے پر درخت لگانا اور متبادل توانائی کے ذرائع اپنانا اس مسئلے کے حل کی طرف اہم اقدامات ہیں۔

ممکنہ حل

ڈاکٹر پرویز نے بتایا کہ اسلام آباد میں الیکٹرک بسوں کا تعارف ایک مثبت قدم ہے، لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ الیکٹرک گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کو فروغ دیا جائے، اور فوسل ایندھن کے استعمال کو کم کیا جائے۔ ساتھ ہی، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو ریگولیٹ کرنا اور عمارتوں کی تعمیر میں سبزے کو شامل کرنا ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ڈیزل گاڑیوں کی روک تھام کی جائے، تو اسلام آباد کے موسم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

ماضی کی سردیاں اور موجودہ صورتحال

1984 میں اسلام آباد میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 2.8 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا، جبکہ 1967 میں یہ منفی 3.9 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں سردی کی شدت میں کمی اور دورانیے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دسمبر 2023 میں، رات کے وقت کا درجہ حرارت تین سے چار ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس رہا، جو دس سال پہلے کے مقابلے میں نمایاں فرق ہے۔

اسلام آباد میں سردی کا مستقبل

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو اسلام آباد سردیوں سے مکمل طور پر محروم ہو سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی تعمیرات، جنگلات کی کٹائی، اور شہری ترقی کے دیگر عوامل موسم کو تبدیل کر رہے ہیں۔

کیا اسلام آباد دوسرا کراچی یا لاہور بننے جا رہا ہے؟

اسلام آباد کا موسم اس کی منفرد پہچان ہے، لیکن موجودہ رجحانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دارالحکومت اپنی اس پہچان سے محروم ہو سکتا ہے۔ سردیوں کے دورانیے میں کمی، بڑھتی ہوئی گرمی، اور غیر منصوبہ بند شہری ترقی تشویشناک ہیں۔ اگر موثر اقدامات نہ کیے گئے، تو اسلام آباد بھی کراچی اور لاہور کی طرح سردیوں کے بغیر ایک گرم شہر بن سکتا ہے۔

Leave a Comment