فروزاں رپورٹ
آنے والے برسوں میں موسمیاتی تباہیوں میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے، کیا دنیا کی حکومتیں ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی قدرتی آفات کے سنگین اثرات 2024 میں شدت اختیار کر گئے، پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک کمیونٹیز، معیشتوں اور ماحول، غرض کہ زندگی کا ہر شعبہ اور دنیا کا ہر خطہ اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ 2024 پہلا سال تھا جس میں درجہ حرارت 2015 کے پیرس معاہدے کے تحت 1.5 ڈگری (2.7 فارن ہائیٹ) کی حد کو عبور کیا گیا، جو کہ قبل از صنعتی اوسط سے اوپر ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنا اور پیچھے کی جانب لے جانا تھا جس پر دنیا کی تمام حکومتوں نے دستخط کیے تھے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا نے 2024 میں درجنوں قدرتی آفات کا سامنا کیا، اسپین میں شدید بارشوں سے لے کر مغربی افریقہ میں ہیٹ ویو اور فلپائن میں طوفانوں تک۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اس سال موسمی تبدیلی سے جڑی 26 آفات نے 3,700 سے زائد افراد کی جان لی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، ان آفات کے نتیجے میں 229 ارب ڈالر کے نقصانات کا سامنا کیا۔
کرسچین ایڈ کی جانب سے کیے گئے بیمہ ادائیگیوں کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ مالی تباہی کا تین چوتھائی حصے کا شکار امریکہ ہوا جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کو نہ ماننے والے ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے والے ہیں۔
نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اکتوبر کے درمیان، امریکہ میں 24 قدرتی آفات کے واقعات پیش آئے جن کے نقصانات ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھے، ان میں 17 شدید طوفان، 4 طوفانی سلسلے، ایک جنگل کی آگ اور دو برفانی طوفان شامل ہیں، جس کے نتیجے میں کم از کم 418 اموات ہوئیں۔ یاد رہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب 2018 کے بعد، ایک ہی سال میں دو طوفان ایسے ہوئے جنہوں نے 50 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان کیا، ہریکین ہیلی اور ملٹن جنہوں نے ستمبر اور اکتوبر میں امریکہ کو شدید نقصان پہنچایا۔
چین میں سیلاب نے 15.6 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا اور 315 افراد کی جانیں لیں، جبکہ طوفان یاگی نے جنوب مغربی ایشیا کو شدید متاثر کیا، جس کے نتیجے میں 800 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یاگی 2 ستمبر کو فلپائن میں آیا، اس کے بعد یہ لاؤس، میانمار، ویتنام اور تھائی لینڈ تک پہنچا، جہاں اس نے زمین دھنسنے، تیز بارشوں اور سیلاب کا سبب بنتے ہوئے لاکھوں مکانات اور زرعی زمین کو نقصان پہنچایا۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق، 2024 کا سال ریکارڈ پر سب سے زیادہ گرم سال ہونے والا ہے، جو انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے غیر معمولی گرمی کے ایک دہائی کے اختتام کو ظاہر کرتا ہے۔ 2024 کے بلند درجہ حرارت نے ریکارڈ توڑ بارشوں کو بھی جنم دیا، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں تباہ کن سیلاب آئے، جن میں دبئی، کاٹھمنڈو اور برازیل کے ریو گرینڈو ڈو سول شامل ہیں۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کا جائزہ لینے والے نیٹ ورک ڈبلیو ڈبلیو اے کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2024 میں ان تبدیلیوں نے 41 دنوں کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔
رواں سال جون میں سعودی عرب میں حج کے دوران 1,300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جہاں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سیلسیئس (125 ڈگری فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا تھا۔ شدید گرمی جسے ”خاموش قاتل“ کہا جاتا ہے تھائی لینڈ، بھارت اور امریکہ میں بھی تباہی مچائی۔ شدید گرمی کے باعث میکسیکو میں حالات اتنے شدید تھے کہ ہاویلر بندر درختوں سے گر کر مر گئے، جبکہ پاکستان نے لاکھوں بچوں کو گھر پر رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس سے اوپر جا رہا تھا۔ یونان میں گرمی کی ریکارڈ لہر کی وجہ سے اس کے مشہور اکروپولس کو بند کرنا پڑا اور یورپ کے سب سے گرم ترین موسم گرما کے آغاز میں شدید جنگلاتی آگیں بھڑک اُٹھیں۔
موسمیاتی شدت کے باعث اپریل میں، متحدہ عرب امارات نے ایک دن میں دو سال کی بارش کا سامنا کیا جس سے اس کے صحرا کے کچھ حصے سمندر میں بدل گئے اور دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ کینیا جو ایک نسل میں آنے والے قحط سے بمشکل باہر نکلا تھا کہ اس کے بعد اس نے مزید سیلابوں کا سامنا کیا، جس سے اس مشرقی افریقی ملک کو دوہری قدرتی آفات کا بوجھ اٹھانا پڑا۔
مغربی اور وسطی افریقہ میں تاریخی سیلاب کی وجہ سے چار ملین افراد بے گھر، اور 1,500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یورپ خاص طور پر اسپین نے بھی زبردست بارشوں کا سامنا کیا جس کے نتیجے میں مہلک سیلاب آئے۔ اس کے علاوہ افغانستان، روس، برازیل، چین، نیپال، یوگنڈا، بھارت، صومالیہ، پاکستان، بروندی اور ریاستہائے متحدہ بھی 2024 میں سیلاب کا سامنا کرنے والے ممالک میں شامل تھے۔
ایمیزون بارش جنگل اور پینٹانال ویٹ لینڈ کو 2024 میں موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے سنگین خشکی اور جنگلات کی آگیں لگیں، جس سے حیاتیاتی تنوع میں بڑی کمی آئی۔ یاد رہے کہ ایمیزون دنیا کا سب سے اہم زمینی کاربن سنک ہے، جو عالمی موسم کے استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
اس سال کا اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس سی او پی 29 نومبر میں باکو، آذربائیجان میں منعقد ہوئی جس کی اہم توجہ موسمیاتی مالیات پر تھی، جس میں ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ کم از کم 300 ارب ڈالر فراہم کرنے کا عہد کیا، جو پچھلے ہدف 100 ارب ڈالر سے تین گنا زیادہ ہے۔
انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا بھیانک خطرہ بن چکی ہے جس نے کرۂ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کی سطحیں ریکارڈ بلندیوں تک پہنچ چکی ہیں جس کے نتیجے میں آنے والے برسوں میں ان تباہیوں میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے، کیا دنیا کی حکومتیں ان موسمیاتی تباہیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں؟