صائمہ حمید
یہ تنہا سارس اور اس کی سبز شاخ ہمیں بتاتی ہے کہ فطرت ہمیں ایک اور موقع دینے کو تیار ہے, یہ ایک یاد دہانی ہے
کنکریٹ کے شہر میں جہاں عمارتیں آسمان کو چھورہی ہیں اور مشینوں کی گونج زندگی کی آوازوں کو دبا رہی ہیں، ایک تنہا سارس کی اڑان ایک منفرد منظر پیش کررہی ہے۔ اس کی چونچ میں تھمی ہوئی سبز شاخ صرف ایک شاخ نہیں بلکہ امید کا ایک چراغ ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ فطرت ابھی مکمل طور پر ہم سے روٹھی نہیں۔سارس کی نظریں اس منظر پر جمی ہیں جہاں درختوں کی جگہ کنکریٹ کے ڈھانچے ہیں اور سبزہ محض ایک یاد بن چکا ہے۔
وہ زمین پر نہیں اترا بلکہ اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیجیسے کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہو جہاں زندگی کا یہ سبز نشان دوبارہ زندہ ہو سکے۔ اس منظر میں ایک خاموش پیغام پوشیدہ ہے: اگر ہم چاہیں تو فطرت کو واپس لا سکتے ہیں۔شہر کے لوگ اپنی روزمرہ کی مصروفیت میں اس اڑتے ہوئے سارس اور اس کی قیمتی شاخ کو نہیں دیکھ پائے۔ لیکن سارس کی اڑان اور سبز شاخ کی موجودگی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کہیں نہ کہیں زندگی کی امید اب بھی موجود ہے۔
عمارتوں کی تعمیر اور فطرت کی تباہی
دنیا بھر میں ہر سال اربوں درختوں کو کاٹا جاتا ہے تاکہ شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے زمین مہیا کی جا سکے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2020 تک ہر سال تقریباً 10 ملین ہیکٹر جنگلات کی کٹائی ہوئی ہے۔ عمارتوں کی تعمیر کے لیے زمین کی کھدائی اور جنگلات کی کٹائی زمین کے ماحول پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔نیویارک جیسے شہروں میں جہاں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر عام ہے، زمین کی کھدائی مٹی کے کٹاؤ اور آبی ذخائر کو متاثر کیا ہے۔ عمارتوں کی تعمیر کے لیے زمین کھودنے سے %25 تک زیرزمین پانی کے ذخائر ختم ہو سکتے ہیں جس سے نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔عمارتوں کی تعمیر میں بے تحاشہ کنکریٹ، اسٹیل، اور دیگر مواد کا استعمال کیا جاتا ہے جو زمین کی قدرتی زرخیزی کو ختم کر دیتا ہے۔
زمین کی کھدائی سے مٹی کے اوپر زرخیز تہہ ختم ہو جاتی ہے جس سے زمین کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور سیلاب کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ 2012 میں نیویارک کے سمندری طوفان *سینڈی* کے دوران غیر منصوبہ بند تعمیرات اور مٹی کی تباہی کے سبب سیلابی پانی کئی روز تک ٹھہرا رہا جس نے ماحولیات پر گہرے اثرات ڈالے۔عمارتوں کے اطراف کا کنکریٹ پانی کے گزرنے کے قدرتی راستوں کو روک دیتا ہے جس سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے اور سیلاب زیادہ تباہ کن ہو جاتے ہیں۔
جانوروں اور ان کے مسکن پر اثرات
درختوں کی کٹائی کا سب سے زیادہ اثر ان پرندوں اور جانوروں پر ہوتا ہے جو ان میں رہتے ہیں۔ جنگلات کے خاتمے کے باعث ہر سال کئی انواع معدوم ہو رہی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 20,000 سے زائد پرجاتیوں کو ان کے قدرتی مسکن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔نیویارک میں روشنی کی آلودگی کے سبب پرندے اپنی سمت کھو بیٹھتے ہیں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق 500,000 سے زائد پرندے سالانہ عمارتوں سے ٹکرا کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
بلند و بالا عمارتوں سے نکلنے والی مصنوعی روشنی اور شہری شور نے حیوانات کی قدرتی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔مصنوعی روشنی کے سبب کئی پرندے رات کے وقت اپنی سمت کھو دیتے ہیں جس سے ان کی ہجرت متاثر ہوتی ہے۔2017 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، نیویارک میں رات کے وقت روشنی کی شدت کے سبب %60 پرندے اپنا قدرتی راستہ بھول جاتے ہیں.
شور کی آلودگی کئی زمینی جانوروں کی مواصلاتی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے خاص طور پر وہ جانور جو آواز کے ذریعے اپنے ساتھیوں سے رابطہ کرتے ہیں۔شور کی آلودگی سے جنگلی جانوروں کی افزائش بھی متاثر ہوتی ہے۔ نیویارک کے نیشنل پارک میں شور کی وجہ سے %50 جانوروں نے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
عمارتوں کی تعمیر اور موسمیاتی تبدیلی
عمارتوں کی بے ہنگم تعمیر نے ماحولیات میں کاربن کے اخراج کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔تعمیراتی صنعت دنیا کی %39 گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی ذمہ دار ہے۔جنگلات کی کٹائی کے باعث قدرتی کاربن جذب کرنے والے درخت ختم ہو رہے ہیں جس سے گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔نیویارک جیسے شہروں میں گرمی کے دنوں میں درختوں کی کمی کے سبب درجہ حرارت 2 سے 3 ڈگری زیادہ ہو سکتا ہے، جسے *اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ* کہا جاتا ہے۔
عملی اقدامات کی ضرورت
ہمیں فطرت کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔شہروں میں درخت لگانے کے منصوبے شروع کریں۔شجر کاری اور جنگلی حیات کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں۔شہری منصوبہ بندی میں فطرت کے تحفظ کو لازمی حصہ بنایا جائے۔
سارس کی یہ سبز شاخ پیغام دے رہی ہے کہ فطرت کی واپسی کے لیے بس ایک چھوٹی سی کوشش کافی ہو سکتی ہے۔ درختوں کی کٹائی اور عمارتوں کی تعمیر کے سبب ہم نے جو سبزہ ضائع کیا ہے اس کی بھرپائی کے لیے ہمیں فوراً اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دن یہ پرندے بھی ہمیں چھوڑ جائیں گے اور شہروں میں درختوں اور چہچہاتے پرندوں کی خواہش محض ایک خواہش ہی بن کے رہ جائے گی۔
یہ تنہا سارس اور اس کی سبز شاخ ہمیں بتاتی ہے کہ فطرت ہمیں ایک اور موقع دینے کو تیار ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اگر ہم نے ابھی اقدام نہ کیا تو شاید کل یہ سب کچھ صرف ایک خواب بن کر رہ جائے۔ہمیں اپنی ترقی اور فطرت کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے فطرت کو نظر انداز کیا تو نہ صرف جنگلی حیات بلکہ انسانوں کی بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔