تحریر: فرحین (نمائندہ خصوصی اسلام آباد)
میڈیا ان مسائل کو ترجیح دے، تو یہ ایک بڑے سماجی اور ماحولیاتی شعور کی بنیادبن سکتاہے، جو پائیدار حل کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگا
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کر رہی ہیں، مگر کیا ہمارا میڈیا اس بحران کو مؤثر انداز میں اجاگر کر رہا ہے؟ مختلف تحقیقی مطالعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں ماحولیاتی مسائل کی رپورٹنگ اب بھی ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ “پاکستان جرنل برائے ماحولیاتی مطالعات” میں شائع شدہ ایک مطالعے کے مطابق، 2022 اور 2023 میں پاکستان کے پانچ بڑے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں سے صرف 4.8 فیصد ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق تھیں، جبکہ برقی ذرائع ابلاغ میں یہ تناسب مزید کم پایا گیا۔
ایک اور تحقیق، جو “بین الاقوامی جرنل برائے ذرائع ابلاغ اور ماحولیاتی تبدیلی” میں شائع ہوئی، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ماحولیاتی رپورٹنگ زیادہ تر قدرتی آفات، حکومتی بیانات، یا بین الاقوامی کانفرنسوں تک محدود رہتی ہے، جبکہ سائنسی تجزیے، اعداد و شمار پر مبنی رپورٹس، اور حل تجویز کرنے والی خبروں کی تعداد کم نظر آتی ہے۔ تحقیق کے مطابق، 2018 سے 2023 کے دوران ماحولیاتی موضوعات پر نشر ہونے والی خبروں میں سے 70 فیصد کا تعلق صرف سیلاب، گرمی کی شدت، یا اسموگ جیسے فوری اثرات سے تھا، جبکہ طویل المدتی ماحولیاتی خطرات اور پالیسی تجزیے کمزور دکھائی دیے۔
تیسرا تحقیقی مطالعہ، جو “جنوبی ایشیائی جرنل برائے ماحولیاتی رپورٹنگ” میں شائع ہوا، یہ بتاتا ہے کہ ماحولیاتی صحافت میں وسائل کی کمی اور صحافیوں کی سائنسی معلومات کا فقدان بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ تحقیق میں شامل 100 صحافیوں میں سے 65 فیصد نے اعتراف کیا کہ انہیں ماحولیاتی مسائل پر رپورٹنگ کے لیے خاطر خواہ تربیت حاصل نہیں ہوئی، جس کے باعث اکثر ماحولیاتی رپورٹس سرکاری بیانات یا غیر تصدیق شدہ معلومات پر مبنی ہوتی ہیں۔
اس مضمون کا مقصد پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی رپورٹنگ کے موجودہ رجحانات کا تجزیہ کرنا اور ان چیلنجز کے ممکنہ حل پر روشنی ڈالنا ہے جو ماحولیاتی رپورٹنگ کی راہ میں حائل ہیں۔ میڈیا اس اہم مسئلے کو زیادہ مؤثر انداز میں اجاگر کر سکتا ہے۔
صحافیوں اور ماہرین کی آراء
سینئر صحافی مبشر بخاری نے “فروزاں” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ذرائع ابلاغ میں اس طرح سے کام نہیں ہو رہا جس طرح ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، مگر انہیں درست طور پر رپورٹ نہیں کیا جا رہا کیونکہ ذرائع ابلاغ میں آگاہی بہت کم ہے۔ 32 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ صحافی نے ماحولیاتی رپورٹنگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں ماحولیاتی مسائل کو زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ اداروں کی پالیسیاں اور سیاست پر زیادہ توجہ ہے، جس کے باعث یہ اہم موضوع نظرانداز ہو رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ نامہ نگاروں کو تربیتی ورکشاپس کے ذریعے ماحولیاتی رپورٹنگ کی تربیت دی جائے تاکہ وہ اس پر بہتر انداز میں کام کر سکیں۔
“ہم نیوز” کے انگریزی شعبے کے سربراہ ظفر علی خان نے “فروزاں” کو پاکستان میں ماحولیاتی مسائل کی رپورٹنگ کے حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہیں، مگر اس کے باوجود ذرائع ابلاغ میں ماحولیاتی مسائل کی کوریج مناسب نہیں ہے۔ ظفر علی خان گزشتہ 20 برس سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، انہوں نے کہا کہ اگرچہ قدرتی آفات جیسے سیلاب اور گلیشیئرز کے پگھلنے کی خبریں کچھ عرصے تک ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں، مگر جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی اور پانی کی کمی جیسے مسائل پر مستقل اور جامع رپورٹنگ کم ہی کی جاتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ صحافت میں ماحولیاتی رپورٹنگ کو ایک مستقل شعبہ بنایا جائے اور ماہرین کے ساتھ تعاون کرکے اس مسئلے کی رپورٹنگ میں گہرائی اور سائنسی درستگی لائی جائے۔
پاکستان میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے وابستہ صحافی محمد العاص نے “فروزاں” سے گفتگو میں کہا کہ ماحولیاتی مسائل پر ذرائع ابلاغ میں بات ہوتی ہے، مگر وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب تک کوئی بڑا سیلاب، سنگین خشک سالی یا شدید اسموگ نہ ہو، اس وقت تک ماحولیاتی مسائل خبرنامے کا حصہ نہیں بنتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی مسائل پر سنجیدہ رپورٹنگ اس وقت ممکن ہوگی جب ذرائع ابلاغ کے مالکان اس کو اپنی ادارتی پالیسی کا حصہ بنائیں گے۔
ممکنہ حل اور تجاویز
ماہرین اور صحافیوں کی آراء سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ کے ادارے اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں، صحافیوں کو تربیت فراہم کریں، اور تحقیقی صحافت کو فروغ دیں، تو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق عوام میں شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، اعداد و شمار پر مبنی صحافت، میدان میں جا کر کی جانے والی رپورٹس، اور ماہرین کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے رپورٹس کو زیادہ جامع اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز صرف حکومتی پالیسیوں یا عالمی معاہدوں کے مرہون منت نہیں، بلکہ عوامی شعور اور ذرائع ابلاغ کی مستقل توجہ بھی اس میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ ان مسائل کو سنجیدگی سے لے اور انہیں ترجیح دے، تو یہ ایک بڑے سماجی اور ماحولیاتی شعور کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جو پائیدار حل کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔