رپورٹ: فرحین (نمائندہ خصوصی اسلام آباد)
اگر کسی انسان کو اس کے رہائشی علاقے یا جنگلی حیات کو اس کے قدرتی ماحول سے دور کردیا جائے تو کیا ہوتا ہے؟
زیادہ مت سوچیں، اگر ایسا ہوا تو وہی ہوگا جو کچھ روز قبل ڈی ایچ اے روالپنڈی میں ہوا۔ جی ہاں، اگر آپ کسی جانور یا انسان کو اس کے ماحول سے دور کریں گے تو اسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس تنیدوے کا تھا۔ جس طرح ماحولیاتی تبدیلیاں جنگلی حیات کے لیے مسائل کی وجہ بن رہی ہیں اسی طرح انسانی روئیے بھی ان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ جنگلی حیات ماحول کا وہ حسن ہیں جس کا کوئی نعم العبدل نہیں۔ لیکن افسوس اب ان کی بیشتر نسلیں نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ آبادی میں اضافہ، انسانی رویئے، جنگلات میں کمی، گرین بیلٹس کی جگہ اونچی اور بڑی عمارات کی تعمیر، ماحولیاتی آلودگی، انسانوں کا جنگلی حیات کے لیے مخصوص علاقوں کے دامن میں رہائش اختیار کرنا۔ قدرتی ماحولیاتی نظام انسان اور جانور دونوں کے لئے انتہائی ضروری ہے، لیکن آج منفی انسانی سرگرمیوں نے کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جس کے نتیجے میں ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس سے ناصرف انسان بلکہ جنگلی حیات بھی بہت زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔
اگر بات کی جائے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر آپ کو تازہ اور صاف ستھری ہوا میں سانس لینا ہے اور قدرتی ماحولیاتی حسن سے لطف اندوز ہونا ہے تو مارگلہ ہلز نینشنل پارک چلے جائیں لیکن افسوس اب صورتحال مختلف ہوچکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور انسانی مداخلت سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک اور یہاں کی جنگلی حیات کو بھی شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
مارگلہ ہلز نینشل پارک کا شمار پاکستان کے تیسرے بڑے نیشنل پارک میں کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بنیادی طور پر نیشنل پارک کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی کے علاوہ کان کنی، ایندھن کے حصول کے لیے درختوں کی کٹائی، مویشیوں کو جنگل میں چرانا اور جنگلی گاجر سمیت مختلف غیر ملکی انواع کی کاشت شامل ہے جس کی روک تھام ضروری ہے۔
بین الاقوامی ماہر ماحولیات ڈاکٹر نعیم پرویز نے فروزاں کو بتایا کہ آب و ہوا میں پیدا ہونے والی شدت انسانوں کی طرح جانوروں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے، یہ جانوروں کے کھانے اور افزائش، بیجوں سے پودے اگنے، پھولوں اور پھلوں کے پیٹرن کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
فروزاں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت موسموں کی شدت کے نتیجے میں سیلاب، ہیٹ ویو اور خشک سالی ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی آبادی کے علاقوں میں توسیع،مختلف اور بے ہنگم تعمیرات، سڑکوں اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے جانوروں کی قدرتی ماحول میں نقل مکانی محدود ہو جاتی ہے جس کے باعث انسان اور جنگلی حیات کے درمیان ماحولیاتی توازن برقرار رکھنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے حکام کا دعویٰ ہے کہ 2016 کے بعد سے اب تک مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں جنگلی حیات کے لیے سازگار ماحول بنایا گیا ہے جس کے باعث ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے خاص طور پر چیتوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔
حکام نے فروازں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں 12 سے 13 کی تعداد میں چیتے موجود ہیں اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ چیتے تو اسلام آباد مارگلہ ہلز کے ہی ہیں لیکن پہلے موسم سرما میں مری اور دیگر سرد علاقوں سے عام چیتے یہاں ہجرت کرکے آجایا کرتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے اس لیے سردیوں میں ان کی تعداد بڑھ جاتی تھی۔ لیکن اب مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں انہیں ایک معتدل ماحول ملا ہے اس لیے انہوں نے یہاں ہی رہنا شروع کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تقریبا دس برس قبل اور آج کا موازنہ کیاجائے تو اسلام آباد مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں سبزے اور جنگلی حیات میں اضافہ ہوا ہے، جنگلی حیات قدرتی ماحول کا حسن ہیں جسے برقرار رہنا چاہیئے۔ “نیشنل پارک میں چیتوں و دیگرجنگلی حیات کا دکھائی دینا ماحولیاتی نظام کےلیے خوش آئند ہے۔” ان کا کہنا تھاکہ دراصل ہماری عوام میں جنگلی جانوروں سے نمٹنے کے لیے آگاہی کی کمی ہے۔
سید پور گائوں کے واقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نہ کہا کہ اس قسم کے واقعات کا ہونا سراسر انسانوں کی غلطی ہے کیونکہ ہم ان کے گھروں اور رہائشی علاقوں میں گھس رہے ہیں۔ چیتا اس وقت تک انسان پر حملہ نہیں کرتا جب تک اسے خطرہ محسوس نہ ہو۔اسلام آباد وائلڈلائف میجنمنٹ پورڈ کی جانب سے گزشتہ کچھ عرصے قبل کیے گئے ایک سروے کہ مطابق مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہرن، ہمالیائی سرخ لومڑی، ہیج ہاگ، پیلا چمگاڈر،پینگولین، بندر، گیڈر، پہاڑی لومڑی، جنگلی بلی، چیتا، جنگلی سور، صحرائی خرگوش،گورل اور سانپ سمیت مختلف نایاب پرندوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق نینشل پارک میں کم و بیش 650 قسم کے پودے، 350 ہجرتی، 38 ہرن، گیڈر، چیتے اور دیگر نایاب جنگلی حیات موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں 32 قسم کے رینگنے والے جانور بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں جنگلی حیات پر بھی اپنے منفی مرتب کر رہی ہیں، گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں اضافہ اب ایک تشویش ناک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ جس کے منفی اثرات دنیا کے مختلف خطوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں گلشیئر پگھل رہے ہیں اور ان کے رہائشی سنو لیپرڈ شدید متاثر ہو رہے ہیں، ان کی خوراک کا مسئلہ پیدا ہوگا تو وہ انسانی آبادیوں کی طرف آئیں گے تو آبادیوں میں موجود انسانی جانوں کو خطرہ ہوگا، جس کی وجہ سے انسان انہیں ماریں گےاور ان کے رہنے کی جگہ کم ہوتی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق انسانی آبادی بڑھنے سے بھی جنگلی حیات کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام آباد اب کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔ جیسے جیسے یہاں آبادی بڑھ رہی ہے، جنگلی حیات کی خوراک کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ پہلے یہاں بڑی تعداد میں خنزیر ہوتے تھے، جو چیتوں کی بنیادی خوراک ہیں لیکن اب ان کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے جس کے باعث چیتوں کی خوراک کا مسلہ بن گیا ہے اور وہ انسانوں اور مویشیوں پر حملے کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق برفانی چیتے آٹھ ہزار تک ہیں، لیکن جس تیزی سے انسانی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں جنگلی حیات کے لیے 428 حفاظتی علاقے ہیں۔ جن میں ہنگول، کیرتھر گلیات ایویبہ اور مارگلہ ہلز ینشنل پارک انتہائی اہمیت کے حامل زون ہیں، یہ اسی لیے مختص کیے گئے ہیں یہ کہ نایاب جنگلی جانوروں کی آماجگاہیں ہیں۔ پاکستان کا18 فیصد حصہ جانوروں کے حفاظتی علاقوں پر مشتمل ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سئنیر ڈائریکٹر رب نواز نے بتایا کہ اس وقت وائلڈ لائف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے جو “گرین کوریڈورز” تھے وہ اب ناہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک بھی متاثر ہورہا ہے کیونکہ اس کے ارد گرد دیہی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے لوگوں میں وائلڈ لائف سے نمٹنے کے لیے آگاہی کی کافی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر وائلڈ لائف پر مشتمل علاقوں میں تجاوازات کے ساتھ منصوبہ بندی کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جس کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا حسن وہاں کی جنگلی حیات اور سبزہ ہے لیکن بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت، تجاوزات، گرین کوریڈورز اور ماحولیاتی تبدیلیاں ان پر براہ راست اثر انداز ہورہی ہیں، اگر اس کی درست طریقے سے حفاظت نہ کی گئی تو اس کا حسن ماند پڑ سکتا ہے، جسے بچانے کے لیے تمام اداروں کو مشترکہ ،مکمل اور جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔