تحریر: خلیل رونجھو
بڑھتی ہوئی شدید بارشیں اور غیر متوقع موسمیاتی حالات ان غاروں کی ساخت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی تحصیل بیلہ سے قریب 40 کلومیٹر شمالی مغربی پہاڑوں میں واقع غاروں کا پراسرار شہر کء ناموں اور جغرافیائی لحاظ سے مشہور ہے اس جگہ کاقدیمی اور تاریخی نام ہے مائی پیر, مائی گوندرانی اور مائی بروچانی کے علاوہ ” شہر روغان ” یعنی پرانے گھر، اور روحوں کا گھر۔ اس مقام کی سب سے مشہور لوک کہانی مائی گوندرانی نامی بزرگ خاتون سے منسوب ہے، جنہوں نے روایت کے مطابق بدروحوں کو اس علاقے سے نکال باہر کیا تھا۔ مقامی افراد آج بھی ان کے مزار کو نہایت عقیدت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔
یہ علاقہ سیاحت اور تاریخی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ یہ مقام اپنی منفرد جغرافیائی ساخت، قدرتی حسن، اور تاریخی کشش کے باعث نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف مقامی کمیونٹی کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ بلوچستان کے سیاحتی شعبے میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔
پہلی دفعہ جب سیاح اس جگہ کا رخ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک مکمل آبادی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں مگر یہ پورا علاقہ آبادی نہ ہونے کے باعث انتہائی سنسان اور پر اسرار ہے۔ غاروں کے اندر تقریبا 51 مربع فٹ پر کمرے بنائے گئے جن کے باقاعدہ دروازے تھے اور ساتھ برآمدوں کے آثار بھی موجود ہیں۔
کمروں کے اندر بھی پارٹیشن ہیں جو غالبا کچن یا باتھ روم کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔ یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے اور غاروں کے اندر بھی چمگادڑوں کے بسیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ بلند پہاڑوں میں گھری یہ بستی کسی ہالی ووڈ کی فلم کا منظر جیسی ہے۔ بہت سے غار سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو بڑے خاندانوں کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں۔ جن چٹانوں میں یہ غار بنائے گئے ہیں ارضیاتی ماہرین کے مطابق وہ گارے نما مٹی، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہیں۔ مگر ان پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سائیں قاضی امجد اپنی کتاب ”لسبیلہ عہدِ قدیم سے عصر حاضر تک” میں شہر روغان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ بستی تاریخ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت پر آج تک پردہ نہیں ڈالا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی تحقیق کی کمی ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ شہر کب اور کس نے بسایا۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ سکندر اعظم نے یہاں شہر بسایا، مگر یہاں یونانی طرز تعمیرکے آثار نہیں ملے۔ دیگر مورخین اسے بدھ مت کے دور کا شہر سمجھتے ہیں، مگر اس بارے میں بھی کوئی حتمی شواہد نہیں ملے۔ ان غاروں کو بعض لوگ جنات کا ٹھکانہ سمجھتے ہیں۔
ایڈوکیٹ عاصم لاسی، جو لسبیلہ کی تاریخ و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ شہر روغان میں واقع تاریخی غاروں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے مطابق برٹش انڈین نیوی کے کمانڈر ٹی جی کارلس نے سن 1883 میں اسے دریافت کی۔ مگر کارلس نے بھی محض سرسری معلومات فراہم کیں ان کی معلومات کے مطابق اس علاقے میں تقریباً 800 سے 1500 غاریں موجود تھیں جن کے باقاعدہ راستے تھے۔ تاہم، آج ان میں سے صرف 200 کے قریب غاریں باقی رہ گئی ہیں جبکہ باقی معدوم ہو چکی ہیں۔ عاصم لاسی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مصنوعی غاریں بنائی جاتی ہیں تاکہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکے، جو ملک کو کروڑوں روپے کی آمدنی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان میں موجود قدرتی اور تاریخی ورثے کی مناسب دیکھ بھال اور ترقی پر توجہ نہیں دی جا رہی، جو کہ افسوسناک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان قیمتی تاریخی مقامات کو محفوظ بنانے اور ترقی دینے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔
عاصم لاسی نے بتایا کہ 2022 میں وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے دور حکومت میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت کنڈ ملیر اور شہر روغان کے تاریخی مقامات کی ترقی کے لیے فنڈز مختص کیے گئے تھے، لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ بعد میں نظرانداز کر دیا گیا۔
کاکاز ٹریول گروپ لسبیلہ کے بانی انجنیر عبدالقادررونجھو کے مطابق یہ علاقہ قدرتی حسن اور تاریخی ورثے کا ایک انوکھا امتزاج ہے جو سیاحتی ترقی کے لیے بے پناہ امکانات رکھتا ہے۔ یہاں بہتی ہوئی شفاف ندی، سرسبز درخت، اور پہاڑوں میں اترتے پرندے اس کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس مقام کا سب سے اہم تاریخی اثاثہ گوندرانی کی قدیم غاریں ہیں، جو شہد کے چھتوں کی مانند انسانی ہاتھوں سے تراشی گئی ہیں اور آثارِ قدیمہ میں عالمی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ غاریں ندی کے پس منظر میں واقع ہیں، اور ان کی ترتیب سے یہاں ایک مکمل ہاؤسنگ سوسائٹی کا تصور ابھرتا ہے جہاں ہزاروں غار نما گھر موجود تھے۔ یہ غاریں مختلف سطحوں پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، لیکن دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے اب یہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
عبدالقادر رونجھو کا کہنا ہے کہ ان گھروں کی بناوٹ سے لگتا ہے کہ یہاں کے قدیم رہائشی نہایت مہذب اور ملنسار لوگ تھے، جنہوں نے باہمی ربط و تعاون کے ساتھ ایک مربوط معاشرتی نظام تشکیل دیا تھا۔ غاروں کی ترتیب اور ان کا جال اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک منظم کمیونٹی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے رہائشی ڈھانچے میں ہم آہنگی اور اتحاد کا عکس جھلکتا ہے، جو اس دور کی تہذیبی ترقی کی گواہی دیتا ہے۔
عبدالقادررونجھو کے مطابق اگر اس تاریخی ورثے کی بحالی اور تحفظ پر کام کیا جائے تو یہ مقام نہ صرف ایک عظیم سیاحتی مرکز بن سکتا ہے بلکہ تحقیق کے شعبے میں بھی عالمی اہمیت حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اقدامات مقامی آبادی کے لیے روزگار اور ترقی کے بے شمار مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بنیں گے۔
اس ہی شہر روغان کے قریبی سیاں گوٹھ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبد المنان روغانوی کہتے ہیں کہ یہ غار ہمارے علاقے کا تاریخی ورثہ ہے جس کو دیکھنے کیلیے سیاح دور دور سے آتے ہیں لیکن سہولیات کی عدم فراہمی سے یہاں پر مشکلات کا سامنا ہے ان کا کہنا ہے ک گوندرانی کے غاروں تک رسائی کے لیے بہتر انفراسٹرکچر مہیا کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس علاقے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے جدید سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ نہ صرف تاریخی ورثے کی حفاظت میں مددگار ہوگا بلکہ مقامی آبادی کے لیے روزگار اور کاروباری مواقع بھی پیدا کرے گا۔ گوندرانی کے قدرتی حسن اور ثقافتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں ایڈونچر ٹورزم اور ماحولیاتی سیاحت کے منصوبے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔
منان روغانوی کے مطابق سیاحتی ترقی کے ذریعے گوندرانی غاروں کے علاوہ دیگر قریبی مقامات جیسے،شرین فریاد، وائی، کوندی،کشاری تک بھی سیاحوں کی رسائی آسان بنائی جا سکتی ہے۔ سیاحوں کو غار شہر کی پراسرار دنیا سے روشناس کرانے کے لیے ورچوئل ٹورز کا انعقاد ایک اہم قدم ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر مؤثر تشہیری مہم اس مقام کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
غیر سرکاری تنظیم وانگ کی کلائمیٹ ایکسپرٹ اسمہ علی نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات گوندرانی کے تاریخی غاروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی شدید بارشیں اور غیر متوقع موسمیاتی حالات ان غاروں کی ساخت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ سیلابی پانی کے بہاؤ نے زمین کا کٹاؤ بڑھا دیا ہے، جس سے کئی غاروں کے داخلی راستے اور اندرونی حصے کمزور ہو گئے ہیں۔ یہ مناظر قدرتی ورثے کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں، جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کی واضح مثال ہیں۔
اسمہ علی نے اس صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ان قدرتی خزانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ان غاروں کو سیلابی پانی اور زمین کے کٹاؤ سے بچانے کے لیے مضبوط حفاظتی دیواریں تعمیر کی جائیں اور نکاسی آب کا جدید اور فعال نظام قائم کیا جائے۔
مزید برآں، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جامع منصوبہ بندی اور پائیدار حفاظتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے تاکہ ان تاریخی اور قدرتی ورثوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ان اقدامات کا مقصد نہ صرف موجودہ خطرات کو کم کرنا ہے بلکہ مستقبل میں بدلتے موسم کے اثرات سے بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان غاروں کا تحفظ ہماری ثقافتی شناخت اور ماحولیاتی تنوع کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
لسبیلہ میں سیاحت کے بے شمار قدرتی اور تاریخی مقامات موجود ہیں، جن میں گڈانی، سونمیانی، کنڈملیر، سریندہ جھیل، کھرڑی، کوندی، کشاری، اور ڈام جیسے مقامات شامل ہیں، مگر افسوس کہ یہ تمام سیاحتی مقامات بھی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ان مقامات کی قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف مقامی کمیونٹی کی معاشی ترقی متاثر ہو رہی ہے بلکہ بلوچستان کے سیاحتی شعبے کو بھی فائدہ نہیں مل رہا۔
لسبیلہ کی یہ قابل توجہ بات ہے کہ یہاں کے منتخب عوامی نمائندگان، وفاقی وزیر جام کمال خان اور صوبائی مشیر ثقافت و سیاحت زرین مگسی، خود ایڈونچر اور سیاحت کے شوقین ہیں۔ لیکن ان کے علاقوں میں سیاحتی مقامات کو مناسب توجہ نہ ملنا ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ان کی سرپرستی میں سیاحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں گوندرانی بیلہ کے غاروں اور دیگر سیاحتی مقامات تک رسائی کے لیے پختہ سڑکوں کی تعمیر کی جائے اور پہاڑوں سے نیچے اترنے کے لیے محفوظ ٹریک بنائے جائیں۔ غاروں تک پہنچنے کے لیے مناسب راستے مہیا کیے جائیں اور سیاحوں کی رہنمائی کے لیے معلوماتی بورڈ نصب کیے جائیں۔
اس کے علاوہ، سیاحوں کی آرام، رہائش و کیمپنگ کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ اس منفرد تجربے سے بھرپور لطف اندوز ہو سکیں۔ محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ کو مستقل عملے کی تعیناتی کرنی چاہیے تاکہ ٹورسٹ گائیڈز، غاروں کی حفاظت کے لیے چوکیدار، اور صفائی و دیکھ بھال کے ذمہ دار ملازمین سیاحوں کی خدمت میں موجود ہوں۔ اس طرح نہ صرف سیاحوں کا تجربہ خوشگوار ہوگا بلکہ تاریخی ورثے کا تحفظ بھی یقینی بنے گا۔
اس تحریر کے توسط سے صوبائی مشیر برائے سیاحت و ثقافت نواب زادہ میر زرین خان مگسی سے گزارش ہے کہ وہ گوندرانی غاروں سمیت دیگر سیاحتی مقامات کی بحالی اور سیاحت کے فروغ کے منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ سیاحتی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے جدید منصوبے متعارف کرائے جائیں تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ مذیدیہ کہ ضلع کی سطح پر ایک مقامی انتظامی کمیٹی کا قیام ضروری ہے جو سیاحتی سرگرمیوں کے انتظام، غاروں اور دیگر مقامات کی حفاظت، اور ترقیاتی کاموں کی نگرانی کرے۔ یہ اقدامات نہ صرف مقامی معیشت کو فروغ دیں گے بلکہ بلوچستان کو عالمی سیاحتی نقشے پر ایک نمایاں مقام دلانے میں معاون ثابت ہوں گے۔