مضامین

 تالابوں کا عالمی دن

تحریر: ڈاکٹر ظارق ریاض

محض زبانی جمع خرچ یا دن منانے سے ہم اپنے ماحولیاتی نظام کو نہیں بچا سکیں گے۔

قدرت نے ہماری دنیا کو کئی آبی و زمینی نعمتوں سے نواز رکھا ہے، بلکہ یہ کہنا کہ یہ سب قدرتی وسائل ہمارے سیارے کے زیورات ہیں جنھوں نے اسے اتنا خوبصورت اور اتنی خوبصورتی سے ایک توازن پر برقرار رکھا ہوا ہے غلط نہ ہو گا۔ان فطری وسائل میں تالابوں کی اپنی خاص ماحولیاتی اہمیت ہے۔

تالابوں کو اردو امیں ”آب ستان“، عربی میں ”منطقہ رطبہ“، فارسی میں ”تالاب“ جب کہ انگریزی میں
” ویٹلینڈز“ کہا جاتا ہے۔ تالاب ایک نیم آبی ماحولیاتی نظام پر مشتمل ہے جس میں ہمیشہ و اکثر پانی بھرا رہتا ہے یا یہ جگہ مسلسل پانی سے گیلی رہتی ہے۔یہ گیلا پن صدیوں، سالانہ یا موسمی ہوتا ہے جو کئی طرح کے پودوں اور جانوروں کو قدرتی طور پر محفوظ مساکن مہیا کرتا ہے۔ یہ پودے اور جانور باہم عمل کرکے آبی ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تالابوں کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سوائے انٹارٹیکا کے ہر براعظم میں چھوٹے بڑے تالاب موجود ہیں۔ ان کی ماحولیاتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے پرچم تلے ہر سال 2 فروری کو ”تالابوں کا عالمی“ دن منایا جاتا ہے۔یہ دن ایران کے شہر ”رامسر“ میں منعقدہ کنوینشن کی یاد دلاتا ہے جو 2فروری 1971کو ہوا۔

اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کے درمیان تلابوں کی اہمیت اور ان کے ماحولیاتی کردار کو اجاگر کرنا اور عوامی شعور کی بیداری ہے۔ ہر سال کی طرح اس برس بھی یہ دن خاص مرکزی خیال کی تحت منایا جا رہا ہے۔رواں سال کا موضوع ”تالابوں کا تحفظ اپنے مشترکہ مستقبل کے لیے“ (ہماری مشترکہ مستقبل کے لیے ویٹ لینڈز کا تحفظ) رکھا گیا ہے۔

اس سیارے پر انسانی بقا کے لیے تالابوں (ویٹ لینڈز)کی بڑی اہمیت ہے کیوں کہ یہ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں مخصوص کردار کے حامل ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پانی کو تازہ رکھنے، زیر آب پانی کی مقدار کو برقرا رکھنے،انواع و اقسام کے نباتات و حیوانات کو پناہ گاہیں اور نسل آگے بڑھانے کے لیے جگہ کی فراہمی،سیلابوں کی شدت کو کم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ان کی موجودگی ہمارے نظام اور جنگلی حیات کا توازن برقرار رکھنے میں عطیہ خداوندی سے کم نہیں۔اس سب کے ساتھ یہ ہماری جمالیاتی حس کی تسکین کو یقینی بناتے ہیں۔زیر زمیں پانی کے معیار میں اضافہ کرتے ہیں اور ہماری قیمتی مٹی کو بردگی سے بچاتے ہیں۔ یہ تالاب ہیں جو بے شمار لوگوں کو غذا،ماہی پروری اور ماہی گیری کے ساتھ ساتھ کم یاب انواع کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ماہرین اور طلبہ کو تحقیق و مطالعہ کے لیے شاندار پلیٹ فارم دیتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں نے جہاں دنیا کو طرح طرح کے خطرات سے دوچار کیا ہے وہاں ہمارے تالاب بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہوا کہ وہ تمام ثمرات و فوائدجن کا تعلق تالابوں کی بقا سے وابستہ ہے وہ سب کے سب خطرات کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کی قیمت بھی اول و آخر انسان نے ہی ادا کرنی ہے۔کیوں کہ ان کی تباہی کا ذمہ دار کوئی پودا یا جانور نہیں۔ غیر محفوظ تالاب کئی طرح کے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔

ان خطرات میں سب سے اہم آلودگی ہے جس نے تالابوں اور ان سے وابستہ حیات کو نا پیدگی کے خطرات سے دوچار کر ڈالا ہے۔دنیا بھر میں فالتو اور ضرررساں مادوں سے بھر پور پانی بغیر کسی مناسب تحفظ کے براراست تالابوں،جھیلوں اورنہرروں میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ان میں سیوریج، کارخانوں کا فضلہ،زرعی کیمیائی مادے وغیرہ تازہ پانیوں کا بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔تالاب اور ان سے منسلک جنگلی حیات سخت دباؤ میں ہیں اور ہر گزرتا دن ان پر بھاری پڑ رہا ہے۔

اسی وجہ سے پانی میں حد سے زیادہ نائٹروجنی،فاسفورس اور لیڈ (سیسہ) کے مرکبات کی مقدار ماحولیاتی مسائل پیدا کر رہی ہے اسی وجہ سے یہ پانی اپنی زرعی اور ماحولیاتی اہمیت کھو رہا ہے۔ایک طرح سے یہ نیوٹرنٹ ”نیوٹرینٹ“ لوڈ الجی (الگی)کی غیر ضروری افزائش، آکسیجن کی کمی اور آبی حیات کے ماحول کو زہریلا کرنے جیسے مصائب کا باعث بن رہا ہے۔

ہماری دنیا کے لگ بھگ چالیس (40) فی صد پودوں اور جنگلی حیات کی بقا ان تالابوں سے جڑی ہوئی ہے۔تالابوں کے خاتمے کا سیدھا مطلب ہے کہ ہم ان چالیس فیصد جنگلی حیات اے ہاتھ دھو بیٹھیں گے قدرت اس کا انتقام ہم انسانوں سے ضرورلے گی ا ور قدرت کی نعمت کے ضیاع کا سزاوار انسان ہی ٹہرے گا۔

بات زیادہ دور کی نہیں لگ بھگ پچاس سالوں کے اندر دنیا سے پچیس (25) فی صد تالاب ختم ہوچکے ہیں جو بچے ہیں وہ بھی فطری اعتبار سے بیمار ہیں اور ان پچیس فی صد تباہ حال تالابوں میں ساٹھ (60) فی صد سے زائد انواع ناپید ہو چکی ہیں۔یہ حقائق محض مفروضوں اور کہاوتوں سینہیں سائنسی تحقیقات سے اکھٹے کیے گئے ہیں۔علاؤہ ازیں اانہیں غیر پسندیدہ (انویسیو) انواع کی افزائش و نمو بھی تازہ پانی کے ان ذخیروں کو نقصان پہونچا رہی ہیں، کیوں کہ ان خارجی انواع کی وجہ سے مقامی اسپیشیز نا پید ہو رہی ہیں اور فطرت کے بنائے ہوئے مقامی ماحولیاتی نظام کا ستیاناس ہو رہا ہے۔

ہمارے ماحول میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں جنھیں ”موسمیاتی تبدیلیاں“ کہا جاتا ہے ان کا بھی تالابوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ماحول کے درجہ حرارت اور بارشوں کے تناسب میں تبدیلی ہمارے تالابوں کے لیے خطرناک ہے،اسی لیے موجودہ حالت میں یہ تیزی سے دلدل میں تبدیل ہو رہے ہیں اور دلدل سے خشک ہو کر جنگلی حیات،انسانوں اور ماحولیاتی توازن میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ اگر ہمارے تالاب تروتازہ رہتے ہیں تو جنگلات کی طرح ان میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔

وگرنہ ہمارے زیر زمینپانی کی سطح میں تیزی سے گراوٹ،ماہی پروری میں کمی، پودوں کے مساکن کی تباہی اور آبی ذخائر جیسے مسائل سے بچنا محض ایک خواب ہے۔ اب جب کہ ہمارے پاس وقت کم بچا ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ اب ہم سب نے اپنے تالابوں کے ذریعے اپنی دنیا کو کیسے بچانا ہے!
تالابوں کا عالمی دن یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم نے انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے اپنے ماحولیاتی نظام کو بچانا ہے۔

ان میں سب سے پہلے شجر کاری اور زرعی کیمیائی مادوں کا کم از کم استمال سے بات شروع ہوتی ہے۔ مقامی پودوں کی شجر کاری اور حوصلہ افزائی سے بیرونی و غیر مقامی پودوں کے لیے جگہ نہیں بچے گی اور مقامی پودوں و جانوروں کے مساکن کو محفوظ کرنے میں مدد ملے گی۔ سیوریج اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو تازہ پانی میں شامل کرنے سے قبل حیاتیاتی و کیمیائی طریقوں سے ضرررساں اجزا سے پاک کرنا بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس طرح کم از کم ہمارے تالاب آلودہ ہونے سے بچ جائیں گے۔

ری سائکلنگ (ری سائیکلنگ) بھی اس حوالے سے اہم عمل ہے جو ماحول کو تحفظ فراہم کرے گا۔اس طرح وہ تمام و ہر طرح کی گیسیں اور زہریلے مادوں کو کارخانوں کے دھوئیں سے الگ کر کے ماحول میں چھوڑنا اور پانی کے ضیاع کو روکنا بھی ان اقدامات کا حصہ ہیں جو تالابوں کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ان آبی ذخائر کے پاس بسنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے جا شکار، پودوں کو نقصان پہنچانے اور ایسے کیمیائی مادے پھیلانے سے گریز کریں جو تالابوں اور جنگلی حیات کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں، کیوں کہ یہ بہت حساس اور نازک ہیں اور کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک جیسی آلائشوں کیمتحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔پودوں اور جانوروں کو اپنی نسل آگے بڑھانے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر اس شعور و آگہی کو پیدا کرنا ہے جس کے بغیر کوئی قدم بھی کامیابی کی طرف نہیں جا سکتا۔ اس لیے تعلیم و معلومات کی فراہمی اور جزبہ امداد باہمی کی بدولت عوام ا لناس کو ان تمام منصوبوں میں شامل کرنا ضروری ہے تا کہ انفرادی و اجتماعی جستجو کر کے ہم سب اپنے قیمتی اثاثے کو بچا کر اپنے سیارے کو خود کو اور جنگلی حیات کو برباد ہونے سے بچا سکیں، محض زبانی جمع خرچ یا دن منانے سے ہم اپنے ماحولیاتی نظام کو نہیں بچا سکیں گے!

Leave a Comment