مضامین

بر صغیر کی ماحول دوست عبادت گاہیں

تحریر: محمد وحید اختر

انسان نے دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی عبادت گاہوں کو بھی خراب کر دیا ہے۔

بر صغیر میں گیارہویں اور سولویں صدی کے دوران تمام مذاہب کی عبادت گاہیں جن میں مندر، گردوار،ہ چرچ،مسجد اور درگاہیں وغیرہ شامل ہیں کی تعمیر میں اس وقت کے مطابق ماحول دوست مٹیریل اور ڈیزائن کا استعمال عام ہوا کرتا تھا۔ اس سے پہلے مندر چرچ وغیرہ کی تاریخ تو بہت پرانی ہے۔ یہ عبادت گاہیں توانائی کے استعمال کے حوالے سے زیرو توانائی والی عمارتوں کی لسٹ میں شامل تھیں۔انعبادت گاہوں نے صدیوں تک باہر کے ذرائع سے کوئی توانائی جو ماحول اور عبادت گاہ دونوں کو خراب کرے حاصل نہیں کی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توانائی کے ذرائع بدل کر جدید شکل میں آگئے تو ان عبادت گاہوں کا فعال کردار خود انحصاری پر تبدیل ہو کر توانائی کے نئے ذرائع پرآگیا لیکن ابھی بھی آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی توانائی کے خود انحصاری کے جو ذرائع ہیں وہ ہوا اور روشنی کے لیے زیادہ موثر ہیں۔ پاکستان، ہندوستان، برما،بھوٹان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں آج بھی یہ عبادت گاہیں اچھی حالت میں ہیں اور بہت ہی ماحول دوست ہیں اس لیے کہ ان کو بنانے میں نہ تو کہیں سے کاربن کی مقدار خارج ہو کر فضا کوآلودہ کرتی ہے اور نہ ہی توانائی کا ضیا ع ہوتا ہے، لہذا ہم پورے اعتماد سے ان عمارتوں کو خود انحصاری والی ماحول دوست اور فعال عمارتیں قرار دے سکتے ہیں۔

یہ عبادت گاہیں زیادہ ترآبادی سے دورویرانوں،پہاڑوں اورجنگلوں میں تعمیر کی گئی ہیں یا پرانے فصیل بند شہروں کے اندر اونچے مقامات پر ان کی تعمیر ہوئی ہے۔ اگر کسی جگہ ان عمارتوں کومیدانی علاقے میں بنایا گیا تو ان کوزمین سے کافی اونچا رکھا گیا۔ ایسے اقدامات سے ان عبادت گاہوں میں ہوا کی امد و رفت یقینی بنائی گئی ان میں ہوا کا قدرتیدباؤ اتنا ہوتاتھا کہ بنا کسی مشینی ذرائع کے ہوا ان کے اندر داخل ہو کر باہر نکل سکتی تھی۔

میں نے خود ہندوستان سمیت برصغیر کے بہت سارے علاقوں کا دورہ کیا ہے جہاں مندر، چرچ،گردوارے اور صوفی درگاہ ہیں موجود ہیں جو کہ ہزاروں سال سے اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں اور وہاں پرآنے والے زارین کو قدرتی ہوا فراہم کر رہی ہیں۔ میں نے بھارت اور برما میں ایسے ایسے مندر دیکھے ہیں جن کی بلندی ہزاروں فٹ ہے اور چڑھائی بھی بہت زیادہ ہے ان میں انسان بنا کسی توانائی کے کئی سال تک رہ سکتا ہے۔

پرانے زمانے کے محلات بھی ان قوانین کے تحت ہی بنائے جاتے تھے، تاج محل، لال قلعہ انڈیا،شاہی قلعہپاکستان سمیت بہت ساری عمارتیں ماحول دوست ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان عمارتوں کے ارد گرد دیگر عمارتیں بنا کر ان کا حسن تباہ کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان عمارتوں کے نزدیک اس وقت کوئی اور عمارت تعمیر کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا جیسا کہ متحدہ ہندوستان میں کئی صوفی درد گاہیں مربع یا ہشت پہلو سطحی طریقے پر بنائی گئی ہیں۔

یوں کشادہ صحن کے وسط میں ہونے کے سبب ان مزارات اور درگاہوں میں سے ہوا کا گزر قدرتی انداز سے ہوتا ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر صوفی کی درگاہ پر جالی نما دروازے وغیرہ بنا کر ہوا کے گزرنے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ان عمارتوں میں زیادہ تر مٹی، چونا اور کئی قسم کی دالیں پیس کر اس کا سیمنٹ پیسٹ بنا کر عمارت کو بنایا جاتا تھا جس سے یہ عبادت گاہیں یا دربار وغیرہ ٹھنڈی اور گرم دونوں حالت میں انسان کو راحت فراہم کرتی تھی۔ان عبادت گاہوں پرآنے والے کیونکہ اللہ،بھگوان یاگرو کے مہمان ہوتے ہیں اس لیے ان کی تعمیر میں مہمانوں کو راحت فراہم کرنے والے عوامل کو مد نظر رکھا جاتا تھا۔

آج کے جدید دور میں مندر،چرچ،گردوارے اورمسجدوغیرہ میں آنے والے مہمانوں کو جو عبادت کرنے دور دراز سے آتے ہیں کی سہولیات کے لیے اے سی لائٹ،پکے ہیٹر وغیرہ کا استعمال عام بات ہو گئی ہے۔ بر صغیر میں ان عبادت گاہوں پرآنے والے مہمانوں کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے زیر زمین کنویں کھودے جاتے تھے اور ڈوری یا رسی کے ذریعے ڈور لگا کر پانی نکالا جاتا تھا اور استعمال میں احتیاط برتی جاتی تھی اس لیے پمپ یا انجن کی ایجادسے پہلے غیر ضروری توانائی کا استعمال محب نہ بنتا تھا۔

استعمال شدہ ہواؤں کو ان عبادت گاہوں سے خارج کرنے کے لیے تمام عبادت گاہوں کے درمیان میں گنبد نما زرعی حصے میں کھڑکیاں اور روشندان بنائے جاتے تھے جن سے استعمال شدہ ہیں ہوائیں ہلکی ہو کر اوپر اٹھتی تھی اور ان روشندانوں سے باہر خارج ہو جاتی تھیں اور اس کی جگہ تازہ ہوا قدرتی بہاؤ سے اندر داخل ہو کر اپنی جگہ بنا لیتی تھی۔

اس طریقے سے ہوا کے بہاؤ کا قدرتی نظام واضح ہو جاتا تھا جس کے لیے کسی مشینری کا استعمال نہیں ہوتا، لہذا کوئی ماحول دشمن توانائی اس عمل میں استعمال نہیں ہوتی اس نسبت سے مزارات، عبادت گاہو،ں مسجد، مندر چرچ،گرجے،گردوارے ان سب کو زیرو توانائی استعمال کرنے والی عمارتیں قرار دیا جا سکتا ہے۔

ان عمارتوں میں تعمیر کے لیے جو سامان استعمال ہوتا تھا وہ مٹی کی بیرونی دیواریں پھر بیرونی اور اندرونی اطراف کی دیواروں پر پختہ اینٹوں کا استعمال ہوتا۔مٹی کی دیواریں کسی قسم کی گرمی کو اندر جانے سے روکتی تھیں،کھڑکیوں اور دروازوں کا سائز بھی کم رکھا جاتا تھا۔بیرون حصے پر چونے کا مصالحہ کی قلعی کر کے سفید رنگ کے سبب سورج کی شعائیں زیادہ سے زیادہ واپس چلی جاتی اور دیواروں میں کم جذب ہوتیں جس سے عمارتیں ٹھنڈی رہتی اس کے مقابلے میں آج کی عمارتیں سیمنٹ اور پختہ اینٹوں سے تعمیر ہوتی ہیں جو گرمیوں میں بہت گرم اور سردیوں میں بہت جلد ٹھنڈی ہو جاتی ہیں ان میں سے سورج کی گرمی گزر کر بہت زیادہ اندرونی ماحول کو گرم کر دیتی ہیں۔

کئی پرانی عبادت گاہوں میں لکڑی کی چھت بھی آپ کو جو نظر اتی ہے اس سے کم سے کم درجہ حرارت اندر کمروں میں جاتا تھا۔ ان عبادت گاہوں میں درخت بہت زیادہ تعداد میں لگائے جاتے تھے جنھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاٹ کر عمارتوں میں توثیق کی جاتی رہی ہے۔جب سنگ مرمر کا استعمال شروع ہوا تو تو ان عمارتوں کے صحن میں سایہ دار درختوں کو جو صدیوں سے موجود تھے یہ بہانہ بنا کر کاٹ دیا جاتا کہ ان سے سنگ مر مر کے فرش پر پرندوں اور پتوں کی وجہ سے صفائی نہیں رہتی اور درختوں کی جڑیں فرش کو توڑ دیتی ہیں۔ فرش تو پختہ ہو گئے مگر گرمی کی وجہ سے ان سنگ مرمر پر چلنا بہت مشکل ہو گیا ہے اب سائے کے لیے ان عبادت گاہوں پر شامیا نے یا چھتریاں وغیرہ لگائی جاتیہیں اور کئی جدید عمارتوں پر فائبر گلاس لگا کر ان عمارتوں کے ماحول کو مزید گرم کر دیا گیا ہے۔

ان عبادت گاہوں پر جو درخت ہوتے تھے وہ دن میں اکسیجن خارج کرتے اور رات کو کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج ہوتی تھی۔ قدرتی ماحول، قدیم طرز تعمیر اور عبادت گاہوں پرآنے والوں کو وقت کے ساتھ ساتھ حاضری کے اوقاف میں تبدیلی نے عبادت گاہوں کو کئی صدیوں تک ماحول دوست اور خود انحصار بنائے رکھا،لیکن جدید دنیا نے انسان کی عبادت گاہ کو تبدیل کر دیا جو ماحول دوست فضا ان عبادت گاہوں کی ہوتی تھی اس کو نئی طرز تعمیرات،نئی رسومات، بدلتی ہوئی سماجی و مذہبی اقدار نے ان ماحول دوست عبادت گاہوں کا حلیہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ قدرت کے قوانین کے ساتھ ساتھ مذہب اور عبادت کے قوانین کو بھی بدل دیا گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کم از کم اپنی عبادت گاہ کی جگہ کو قدرتی ماحول میں واپس لانے کی کوشش کر سکتا ہے جو آج کے حالات میں بے حد ضروری ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کی تبدیلی اور دیگر عوامل نے انسان کی تباہی کا سامان پیدا کیا ہے۔آئے روز کے سونامی، طوفان،زلزلے اور سیلاب یہ سب قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نتیجے ہیں۔ انسان نے دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی عبادت گاہ کو بھی خراب کر دیا ہے۔ ہزاروں سالوں سے بنی ہوئی عبادت گاہیں اج بھی زائرین کو راحت اور سکون فراہم کرتی ہیں۔

Leave a Comment