ویب ڈیسک
جنگلاتی آگ کے دھوئیں سے عالمی اموات کا 13 فیصد تعلق
سال 2024 میں عالمی درجہ حرارت ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، جس سے ماحولیاتی پالیسی بنانے والے ماہرین پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر زمین پہلے ہی عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی حد عبور کر چکی ہے۔ اگر یہ حد ایک بار پار ہو جائے تو واپسی تقریباً ناممکن ہوگی۔ انٹارکٹیکا کے برفانی کور میں 2000 سالوں سے محفوظ گیسوں کے تجزیے کی بنیاد پر سائنسدانوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔
شدید گرمی اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں شدت آتی جا رہی ہے، جس کی ایک واضح مثال سمندروں کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے۔ بحرِ اوقیانوس میں طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے، یہاں تک کہ بعض طوفان چند گھنٹوں میں ہی کیٹیگری 1 سے کیٹیگری 3 میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، 2024 اب تک کا گرم ترین سال بننے کے امکانات رکھتا ہے۔
سمندری نظام کو درپیش خطرات
سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث ایک اہم سمندری نظام – اٹلانٹک میریڈینل اوورٹرننگ سرکولیشن (اے ایم او سی) – شدید خطرے سے دوچار ہے۔ یہ نظام گرم پانی کو خطِ استوا سے آرکٹک تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور آرکٹک کے موسمیاتی توازن کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ 2018 کی ایک تحقیق کے مطابق، اے ایم او سی کی طاقت 1950 سے اب تک 15 فیصد تک کم ہو چکی ہے، جو کہ ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے۔
جنگلاتی آگ: بڑھتا ہوا ماحولیاتی بحران
عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے آبی ذخائر سکڑ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں جنگلات کی نمی کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ، کینیڈا، جنوبی یورپ اور روس سمیت کئی خطوں میں جنگلاتی آگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کا باعث بن رہا ہے۔
اکتوبر 2024 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، 2010 کی دہائی میں جنگلاتی آگ کے دھوئیں کا تعلق دنیا بھر میں ہونے والی اموات کے 13 فیصد حصے سے جوڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایمیزون کے جنگلات، جو زمین کی 20 فیصد آکسیجن پیدا کرتے ہیں، ریکارڈ توڑ خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 1950 کے بعد سے ایمیزون کو بدترین ماحولیاتی دباؤ کا سامنا ہے، اور اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو یہ جنگلات اپنے ہی ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔
خشک سالی اور معاشی نقصان
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی ہر سال عالمی معیشت کو تقریباً 300 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر صورتحال جوں کی توں برقرار رہی تو 2050 تک ایمیزون کے 10 سے 47 فیصد حصے کو شدید ماحولیاتی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جس میں بڑھتا درجہ حرارت، خشک سالی اور انسانی سرگرمیاں شامل ہیں۔ ایسی صورت میں ایمیزون جنگلات ایک “تباہ حال جنگل” میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جو اپنی نمی پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیں گے۔
آتش فشانی سرگرمیوں میں اضافہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آتش فشاں پھٹنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئس لینڈ میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے وہاں آتش فشانی سرگرمیاں بڑھ چکی ہیں۔ اگر یہی رجحان برقرار رہا تو مستقبل میں آتش فشاں پھٹنے کے مزید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، جو نہ صرف قریبی آبادیوں بلکہ عالمی موسمی نظام پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔
(بشکریہ: ڈی ڈبلیو)