اسلام آباد: آج دنیا بھر میں جنگلات کا عالمی دن منایا گیا، اور اس موقع پر پاکستان میں جنگلات کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ تاہم، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں جنگلات خصوصاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس کے ماحولیاتی اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔
پاکستان، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، میں جنگلات کا رقبہ پہلے ہی محدود ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں اسلام آباد، جو اپنی سرسبز پہاڑیوں اور جنگلات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے، وہاں درختوں کی کٹائی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے باعث شہر کا موسم تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، جس کی ایک مثال 2024 میں پڑنے والی شدید گرمی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(ڈبلیو ڈبلیو ٰایف) پاکستان کے مطابق ملک میں تقریباً 40 لاکھ ایکڑ رقبے پر جنگلات موجود ہیں، مگر ہر سال 11 ہزار ایکڑ جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ ان کے خاتمے کی بڑی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں، حیاتیاتی تنوع (biodiversity) میں کمی، اور قدرتی آفات شامل ہیں۔
اسلام آباد میں درختوں کی حالیہ کٹائی کے حوالے سے انٹیگریٹڈ ریزیلینس نیٹ ورک کے سی ای او ڈاکٹر بشارت نے نمائندہ “فروزاں” سے گفتگو میں بتایا کہ جن درختوں کو کاٹا جا رہا ہے، وہ “پیپر ملبری” کہلاتے ہیں، جنہیں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی سی ڈی اے نے بغیر تحقیق کے لگایا تھا۔ ان درختوں کی وجہ سے شہر بھر میں پولن الرجی اور دمے کے کیسز میں اضافہ ہوا، جس پر عوام کی جانب سے ان کی کٹائی کا مطالبہ کیا گیا۔
ڈاکٹر بشارت کا کہنا تھا کہ “اگر ان درختوں کو کاٹا جا رہا ہے تو ان کی جگہ متبادل درخت ضرور لگائے جائیں، تاکہ موسم پر منفی اثرات نہ پڑیں۔” ان کا مؤقف تھا کہ اگر صرف نر درخت کاٹے جاتے تو پولن میں کمی آ سکتی تھی، لیکن سی ڈی اے کے ماہرین نے اس پہلو پر توجہ نہیں دی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پیپر ملبری درختوں کی کٹائی کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے، جس کے ماحولیاتی اثرات دور رس ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ “اگر ہر کاٹے گئے درخت کے بدلے میں چار نئے درخت لگائے جائیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔”
ڈاکٹر بشارت نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سی ڈی اے نے ہدایت دی ہے کہ کاٹے گئے درختوں کی جگہ پھل دار درخت لگائے جائیں، مگر ان کی حفاظت اور دیکھ بھال ایک چیلنج ہوگا، کیونکہ عوام پھل توڑتے وقت اکثر شاخیں بھی توڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ یہ جگہیں ٹھیکے پر دے کر ایسے افراد کو دیں جو پھلدار درخت لگائیں اور پھل عوام کو سستے داموں فراہم کریں۔
نیو بلیو ایریا سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ یہ علاقہ ماسٹر پلان کا حصہ ہے، اور وہاں سے درختوں کی کٹائی متوقع تھی، لیکن نئے درختوں کی شجرکاری ضروری ہے۔
انہوں نے سی ڈی اے کی انتظامی تبدیلیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے نے “ہارٹیکلچرل ڈائریکٹوریٹ” کا نام بدل کر “انوائرمنٹ ڈائریکٹوریٹ” رکھ دیا ہے، جس کا مقصد آلودگی پر قابو پانا ہے، مگر اس ڈائریکٹوریٹ میں ماحولیاتی ماہرین موجود نہیں، نتیجتاً نہ آلودگی پر قابو پایا جا رہا ہے نہ شجرکاری کا عمل بہتر انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔
اس معاملے پر نمائندہ “فروزاں” نے سی ڈی اے حکام اور “گرین پاکستان اپ اسکیلنگ پروگرام” کے پراجیکٹ ہیڈ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔