فرحانہ تبسم (منیجر ریسرچ، آغا خان یونیورسٹی)
قدرتی آفات کے بعدذہنی صحت کے خدشات کو حالیہ تاریخ میں تیزی سے تسلیم کیا گیا ہے
موسمیاتی تبدیلیاں جیسے بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بے موسمی بارش، بار بار خشک سالی اور شدید سیلاب پاکستانی عوام کے لیے شدید خطرے کاباعث ہیں۔پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی 222 ملین سے زیادہ ہے، اور دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتیہے جو عام طور پر مون سون کی شدید بارشوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے متاثر ہو تیہیں۔
قدرتی آفات انسانی زندگیوں میں طویل عرصے سے سمجھی جانے والی رکاوٹ ہیں جوکہ صحت، ذریعہ معاش اورمجموعی فلاح و بہبود پر دیرپا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان میں سے سیلاب خاص طور پر تباہ کن ہیں کیونکہ وہ نہ صرف شدید جسمانی نقصان کا سبب بنتے ہیں بلکہ نفسیاتی پریشانی کا بھی۔پاکستان دنیا بھر میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا نوواں ملک ہے اور اسے بار بار سیلاب کی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے،2022 کا سیلاب حالیہ تاریخ کا تباہ کن واقعہ ہے۔
ان سیلابوں نے 33 ملین سے زیادہ کو متاثر کیا، 7.9 ملین افرادکو بے گھر کیاجن میں سے 20.6 ملین کو فوری طور پر امداد کی ضرورت تھی۔اس سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے پیچیدہ اثرات معاشی، بنیادی ڈھانچے کے بڑے پیمانے پر نقصان اور غذائی عدم تحفظ میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے، جس نے ملک کے پہلے سے ہی ناکام صحت کے نظام پر غیر ضروری دباؤ ڈالا۔
سیلاب کی آفات کے نفسیاتی اثرات
سیلاب کی آفات اچانک نقل مکانی، جانی نقصان، معاشی عدم استحکام، جائیداد کے نقصان، مالی عدم تحفظ دماغی صحت کے اہم نتائج کا باعث بنتی ہیں جن میں افسردگی، تناؤ،مایوسی، ڈپریشن اور خوف شامل ہیں۔ سیلاب سے بچ جانے والے بہت سے لوگوں کو مسلسل ڈراؤنے خواب، فلیش بیک اور ہائپر ویجیلنس کا سامنا کرناپڑتا ہے جو کہ طویل مدتی نفسیاتی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ افراد اکثر اپنے مستقبل کے بارے میں بے بسی اور غیریقینی کے احساسات کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں۔جذباتی اور معاشی مایوسی کی وجہ سے تباہی کے بعد خودکشی کی شر ح میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
جنس کے لحاظ سے حساس ذہنی صحت کے خطرات
سیلاب سے متعلق آفات پہلے سے موجود سماجی و اقتصادی اور ثقافتی عدم مساوات کی وجہ سے خواتین اور دیگر کمزور گروہوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہیں۔مختلف تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، اور امدادی پناہ گاہوں میں استحصال میں اضافہ ہواہے، جہاں ناکافی سیکورٹی اور بھیڑ بھاڑ خواتین کو زیادہ غیر محفوظ بنادیتی ہے۔حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو صحت کی دیکھ بھال تک ناقص رسائی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفسیاتی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے حمل اور زچگی کے دوران ذہنی بیماریوں کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔
بہت سی خواتین، خاص طور پرقدامت پسند معاشروں میں معاشرتی فیصلے کے خوف، رازداری کی کمی، اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے ذہنی صحت کی خدمات حاصل کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ بہت سی عورتیں آمدنی کے لیے زراعت اور مویشیوں پر انحصار کرتی ہیں ہیں، جو اکثر سیلاب میں تباہ ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، انہیں بگڑتے ہوئے حالات میں بچوں کی دیکھ بھال، بزرگوں کی دیکھ بھال، اور گھریلو انتظام کی بڑھتی ہوئی ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کی حکمت عملی
اگرچہ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ (ڈی آر ایم) کی حکمت عملی کا مقصد فوری راحت اور بحالی فراہم کرنا ہے، لیکن وہ اکثر متاثرہ آبادیوں کی ذہنی صحت کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ڈی آر ایم نقطہ نظر کے تجزیے سے کئی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔زیادہ تر ڈی آر ایم پالیسیاں بنیادی ڈھانچے اور معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، جبکہ ذہنی صحت کی خدمات پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان بہت سے سیلاب زدہ ترقی پذیر ممالک کی طرح ذہنی صحت کے لئے دیکھ بھال کا بجٹ کا 2فیصدسے بھی کم مختص کرتا ہے جس سے بڑی آبادی ضروری دماغی صحت کے پروگرام کے بغیر رہ جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش اور فلپائن جیسے دیگر ممالک میں کامیاب ڈی آر ایم ماڈل کمیونٹی کی زیرقیادت ذہنی صحت کے پروگراموں پر زور دیا جاتا ہے جو ذہنی صحت کوبہتر بناتے ہیں اور مقامی سپورٹ نیٹ ورک فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کا ردعمل بڑی حد تک اسی طرح کے اقدامات کو شامل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ بین الاقوامی بہترین طریقوں سے پتہ چلتا ہے کہ آفات سے نمٹنے والوں کے لئے ذہنی صحت کی ابتدائی طبی امداد کی تربیت صدمے کی ابتدائی شناخت اور انتظام میں مدد کرتی ہے، جو پاکستان کی ڈی آر ایم حکمت عملی سے غائب ہے۔
خلاصہ اور عملی اقدامات
اگرچہ سیلاب کے جسمانی اور معاشی اثرات کو سنجیدگی سے تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن ان کے نفسیاتی اثرات کوعوامی صحت کی سطح پر واضح طور پر جانچا جانا باقی ہے۔ سیلاب کی آفات اپنے پیچھے اہم ذہنی صحت کے بوجھ کانشان چھوڑ جاتی ہیں جیسے پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی)، اضطراب، بے چینی، تناؤافسردگی، اور معاشرتی خرابی،اس طرح کے واقعات سے بچ جانے والوں کو اکثر دائمی ذہنی تکلیف کا سامنا کرناپڑتا ہے جو سنگین نفسیاتی عوارض کا باعث بن سکتا ہے اگر اس پر توجہ نہ دی جائے۔اگرچہ قدرتی آفات کے بعدذہنی صحت کے خدشات کو حالیہ تاریخ میں تیزی سے تسلیم کیا گیا ہے لیکن ملک میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال گر تے ہوئے بنیادی ڈھانچے کا چیلنج برقرار ہے۔
220 ملین سے زیادہ آبادی کے لئے صرف 400-500 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، اور رسائی بہت محدود ہے، خاص طور پر قدرتی آفات سے متاثرہ دیہی علاقوں کے لئے۔ 2022 کاسیلاب قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع فریم ورک بنانے کی ضرورت کی یاد دلاتا ہے جو نفسیاتی صحت اور بحالی کو مکمل طور پر حل کرے۔ پالیسی سازوں، صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کو یقینی بنانے کیلیے متحد ہوکرکام کرنا چاہئے تا کہ بحالی کے منصوبوں میں ذہنی صحت کی خدمات کو ترجیح دی جائے۔ مقامی حل جیسے کمیونٹی ہیلتھ کیئر ورکرز کی تربیت، پرائمری ہیلتھ کیئر سیٹ اپ میں دماغی صحت کی اسکریننگ کا انعقاد، اور ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی بڑھانا سیلاب کے طویل مدتی نتائج کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔