مضامین

بلوچستان کا ایک ماحول دوست گاؤں

خلیل رونجھو

جب کوئی کمیونٹی محنت، عزم اور جدید سوچ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو وہ اپنی تقدیر خود سنوار سکتی ہے۔

قدرتی وسائل کا تحفظ، جدید سہولیات کا بہتر استعمال اور تعلیم کی روشنی کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بنیادی عوامل ہوتے ہیں، گوٹھ احمد آباد وانگ، بلوچستان کا ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنی ماحول دوستی، پائیدار ترقی اور جدید سہولیات کی بنا پر ایک ماڈل ولیج کے طور پر ابھرا ہے۔ اس گاؤں نے اپنی منفرد منصوبہ بندی، وسائل کے دانشمندانہ استعمال اور ماحول دوست اقدامات کی بدولت پاکستان میں پائیدار ترقی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔

جہاں دنیا کے کئی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا کر رہے ہیں، وہیں احمد آباد وانگ نے اپنی طرزِ زندگی اور بنیادی ڈھانچے میں ایسے انقلابی اقدامات کیے ہیں جو قدرتی ماحول کے تحفظ، کاربن کے اخراج میں کمی اور توانائی کے متبادل ذرائع کے فروغ میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ گاؤں اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اگر کسی بھی علاقے میں عزم، دانشمندی اور اجتماعی کوشش کو بروئے کار لایا جائے تو وہ نہ صرف خود کفیل بن سکتا ہے بلکہ عالمی ماحولیاتی چیلنجز کا بھی مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

یہاں کے رہائشیوں کی تعلیمی ترقی اس گاؤں کی سب سے بڑی کامیابیوں میں شامل ہے۔ احمد آباد وانگ کے تمام افراد پڑھے لکھے اور مختلف شعبوں میں ملازمت پیشہ ہیں، جبکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور گریجویٹ ہے۔ یہ تعلیمی انقلاب نہ صرف انفرادی ترقی کا ضامن ہے بلکہ پورے گاؤں کی اجتماعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں کے لوگ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ گاؤں ایک ذہین اور خود کفیل کمیونٹی کے طور پر ابھرا ہے۔

احمد آباد وانگ میں بجلی کی سہولت موجود ہے، مگر روایتی توانائی کے بجائے یہاں شمسی توانائی کو ترجیح دی گئی ہے۔ پورے گاؤں میں سولر پینلز نصب کیے گئے ہیں، جو گھروں، اسٹریٹ لائٹس اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے بجلی فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف بجلی کے بحران کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو بھی روکتا ہے۔ اسی طرح، گاؤں کے تمام گھروں میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے شمسی توانائی سے چلنے والے واٹر بورنگ سسٹم کا انتظام کیا گیا ہے، جو پانی کی قلت کے مسئلے کا ایک پائیدار حل فراہم کرتا ہے۔

یہاں کے رہائشی خود کفیل طرزِ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ گاؤں کے ہر گھر میں سبزیاں اگائی جاتی ہیں، جو نہ صرف قدرتی اور تازہ ہوتی ہیں بلکہ کیمیائی کھادوں اور زہریلی ادویات سے پاک ہونے کی وجہ سے صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، گاؤں میں خواتین کچن گآرڈننگ کرتی ہیں جہاں مختلف موسمی سبزیاں اور جڑی بوٹیاں اگائی جاتی ہیں، جو نہ صرف گاؤں کے افراد کی خوراکی ضروریات پوری کرتی ہیں بلکہ ان کی صحت مند طرزِ زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

گاؤں میں ایک جانوروں کا باڑہ بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں دیسی طریقے سے گائے، بھینس اور بکریاں پالی جاتی ہیں۔ یہاں سے تازہ دودھ حاصل کیا جاتا ہے، جو گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھرپور بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، گاؤں میں روایتی طریقوں سے لسی اور دیسی گھی بھی تیار کیا جاتا ہے، جو صحت بخش اور خالص ہونے کی وجہ سے مقامی افراد کی خوراک میں ایک اہم جزو کے طور پر شامل ہے۔ ان اقدامات سے نہ صرف گاؤں کے افراد معیاری اور خالص خوراک حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی معیشت بھی مستحکم ہوتی ہے اور خود کفالت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

گاؤں کا سب سے خوبصورت اور دلکش مقام کاکاز گارڈن ہے، جہاں مختلف اقسام کے درخت، پودے اور خوشبودار پھول موجود ہیں۔ یہ گارڈن نہ صرف قدرتی حسن میں اضافہ کرتا ہے بلکہ مقامی افراد اور سیاحوں کے لیے ایک تفریحی مقام بھی فراہم کرتا ہے۔ یہاں بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے ہیں، جہاں وہ شام کے وقت کھیلتے ہیں، جبکہ بڑے افراد باغ کی پر سکون فضا میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس گارڈن میں ایک بہترین لائبریری بھی قائم کی گئی ہے، جہاں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہیں، تاکہ علم دوست ماحول کو فروغ دیا جا سکے۔ مزید برآں، یہاں ایک کنٹین اور گاؤں میں ایک ٹک شاپ بھی موجود ہے، جہاں سے بچے اور بڑے اپنی پسند کی اشیاء خرید سکتے ہیں۔

احمد آباد وانگ میں صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر گھر کے ساتھ ایک چھوٹا باغیچہ موجود ہے، جو قدرتی خوبصورتی اور ماحول کی تازگی میں اضافہ کرتا ہے۔ گلیوں میں مخصوص مقامات پر ڈسٹ بنز رکھے گئے ہیں، تاکہ کوڑا کرکٹ کو منظم طریقے سے ٹھکانے لگایا جا سکے اور گاؤں میں صفائی کا اعلیٰ معیار برقرار رہے۔ گاوں میں سیویج کا ایک وسیع سسٹم موجود ہے گاؤں کے کنارے ایک خوبصورت نرگ ندی بہتی ہے، جو بارش کے دنوں میں کئی دنوں تک رواں رہتی ہے اور علاقے کی قدرتی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ یہ ندی نہ صرف گاؤں کے ماحولیاتی نظام کے لیے اہم ہے بلکہ زمین کی زرخیزی اور حیاتیاتی تنوع کے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

احمد آباد وانگ میں تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل مہارتوں پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ یہاں ”وانگ لیب آف انوویشن” کے نام سے ایک جدید ترین تعلیمی مرکز قائم کیا گیا ہے، جہاں نوجوانوں کو جدید ڈیجیٹل کورسز مفت سکھائے جاتے ہیں۔ یہ لیب خاص طور پر مصنوعی ذہانت (AI) اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز پر توجہ دیتی ہے۔ شہر بھر سے لڑکے اور لڑکیاں یہاں آ کر کلاسز لیتے ہیں اور عملی تربیت حاصل کرتے ہیں، جس سے انہیں روزگار کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں اور وہ عالمی ڈیجیٹل مارکیٹ میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ یہ اقدام نوجوانوں کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھولنے میں ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔

گاؤں میں ایک مدرسہ بھی قائم ہے، جہاں قرآن پاک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مدرسے میں کئی بچے قرآن پاک حفظ کر چکے ہیں اور مزید بچے مسلسل دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مدرسہ گاؤں میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور بچوں کی روحانی نشوونما میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

یہ گاؤں نہ صرف قدرتی وسائل کے تحفظ اور جدید سہولیات کی فراہمی میں خود کفیل ہے بلکہ یہاں کے لوگ ایک مضبوط سماجی ڈھانچے کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خواتین بھی کافی متحرک ہیں اور گاؤں کے تمام افراد آپس میں پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ گاؤں بیلہ شہر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک پکی سڑک کے ذریعے اس سے منسلک ہے۔ گاؤں میں ایک فعال فلاحی کمیٹی قائم ہے، جو ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتی ہے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔

احمد آباد وانگ ایک مثالی گاؤں ہے جو ماحولیاتی تحفظ، جدید سہولیات اور تعلیمی ترقی کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ نہ صرف قدرتی وسائل کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے ذریعے ایک بہتر طرزِ زندگی بھی اپنا چکے ہیں۔ شمسی توانائی، صاف پانی، فری انٹرنیٹ، سیکیورٹی سسٹم اور شجرکاری مہمات جیسے اقدامات اس گاؤں کو دیگر روایتی دیہات سے منفرد بناتے ہیں۔

اگر پاکستان کے دیگر دیہات بھی احمد آباد وانگ کے ماڈل کو اپنائیں تو نہ صرف دیہی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے بلکہ ایک ماحول دوست، تعلیم یافتہ اور خود کفیل معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ یہ گاؤں اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ جب کوئی کمیونٹی محنت، عزم اور جدید سوچ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے تو وہ اپنی تقدیر خود سنوار سکتی ہے۔

Leave a Comment