تحریر: الیجاندرا بورونڈ
گزشتہ چند سالوں میں عالمی حدت کی شدت اس بات کا اشارہ ہے کہ گرمی کے خطرات سائنس دانوں کی پیش گوئیوں سے بھی زیادہ شدید ہو سکتے ہیں۔
جنوری 2025 باضابطہ طور پر دنیا بھر میں اب تک کا سب سے گرم جنوری ریکارڈ کیا گیا ہے، جیسا کہ جاری کردہ نئے اعداد و شمار کے مطابق نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (این او اے اے) نے رپورٹ کیا، جو ان وفاقی اداروں میں سے ایک ہے جو دنیا کے موسم اور آب و ہوا پر نظر رکھتے ہیں۔
2023 اور 2024 دونوں نے پچھلے درجہ حرارت کے ریکارڈ توڑ دیے، اور زمین کے درجہ حرارت کو 1800 کی دہائی کے اواخر کی سطح سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ (2.7 ڈگری فارن ہائیٹ) کے قریب یا اس سے زیادہ لے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب انسانوں نے فوسل فیولز بڑے پیمانے پر جلانا شروع نہیں کیا تھا، جو کہ زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کا سبب بنے۔
تاہم، پیشن گوئی کی گئی تھی کہ درجہ حرارت میں معمولی کمی آئے گی، بنیادی طور پر اس لیے کہ ایک مضبوط ”ایل نینو” جو کہ قدرتی موسمیاتی سائیکل کا ایک حصہ ہے اور شدید گرمی میں معاون ثابت ہوا تھا گزشتہ سال کے آخر تک کمزور پڑ گیا تھا۔ ایل نینو کے دوران زمین عام طور پر معمول سے زیادہ گرم ہوتی ہے، جبکہ اس کے مخالف حصے، جسے ”لا نینا” کہا جاتا ہے، کے دوران عام طور پر ٹھنڈک آتی ہے۔ گزشتہ سال زمین لا نینا مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔
لیکن متوقع کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس کے برعکس، جنوری نے مزید ریکارڈ توڑ دیے: این او اے اے نے رپورٹ کیا کہ یہ ان کے 176 سالہ ریکارڈ میں سب سے زیادہ گرم جنوری تھا۔ کوپرنیکس، جو کہ یورپی موسمیاتی سروس ہے اورعالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھتی ہے، نے رپورٹ کیا کہ جنوری کا درجہ حرارت تاریخی سطح سے 1.75 ڈگری سینٹی گریڈ (3.15 ڈگری فارن ہائیٹ) زیادہ تھا۔
”2023 کے وسط سے درجہ حرارت میں ایک خاصی ڈرامائی چھلانگ دیکھی گئی ہے، اور یہ واقعی اب تک برقرار ہے،” زیک ہاؤسفادر، جو کہ برکلے ارتھ کے ساتھ منسلک ایک ماحولیاتی سائنسدان ہیں، کہتے ہیں کہ اس تسلسل نے بہت سے ماحولیاتی سائنسدانوں کو حیران کر دیا ہے اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آیا ماحولیاتی تبدیلی نے زمین کے سمندروں اور فضا کو کسی نئے، ممکنہ طور پر غیر متوقع طرزِ عمل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ہاؤسفادر کہتے ہیں کہ ایک گرم جنوری کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سال لازمی طور پر ریکارڈ توڑتا رہے گا۔ لیکن اس سے اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ 2025 پچھلے چند سالوں کے غیر معمولی رجحان کو جاری رکھ سکتا ہے۔
یہ اتنا گرم کیوں ہے
گزشتہ چند سالوں اور اس جنوری میں ریکارڈ توڑ درجہ حرارت کی بنیادی وجہ بالکل سادہ ہے، سمانتھا برگس، جو یورپی یونین کے ”کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس” کی ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ ”ہم نے بڑی مقدار میں فوسل فیول جلایا ہے، بہت سے علاقوں میں جنگلات کا صفایا کیا ہے اور شہری ترقی کی ہیجس کے نتیجے میں فضاء، زمین اور سمندروں میں کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا سیارہ مجموعی طور پر گرم ہو رہا ہے،” برگس وضاحت کرتے ہو ئے مزید کہتی ہیں ”لیکن یہ درجہ حرارت ہمیشہ ایک ہموار رفتار سے نہیں بڑھتا: کبھی اس کی رفتار سست ہو جاتی ہے اور کبھی اچانک تیزی سے بڑھ جاتا ہے۔ تاہم، مجموعی طور پر یہ رجحان واضح ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ریڈلی ہارٹن کہتے ہیں کہ ”گزشتہ دس سال تاریخ کے سب سے زیادہ گرم سال رہے ہیں،” جو براہ راست فوسل فیول کے مسلسل اخراج کا نتیجہ ہیں، ہارٹن بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ دو سال2023اور 2024مزید آگے بڑھ گئے۔ یہ متوقع درجہ حرارت سے تقریباً 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم تھے۔
یہ تعداد بظاہر چھوٹی لگتی ہے لیکن موجودہ رفتار سے یہ تقریباً ایک دہائی کی حدت کے برابر ہے۔ جیسے ہی سائنسدانوں نے یہ اعداد و شمار دیکھے، وہ اس کی وجوہات سمجھنے کے لیے متحرک ہو گئے۔’میرا خیال ہے کہ ایک بہت بڑا خدشہ یہ ہے کہ ہم نے شاید اس بات کا درست اندازہ نہیں لگایا کہ سمندر کی سطح یا نچلی فضا کتنی زیادہ گرم ہو سکتی ہے، موجودہ سطح کے گرین ہاؤس گیسوں کے تحت،” ہارٹن کہتے ہیں ممکنہ حدت کو کم سمجھنا اس کے ساتھ جڑے خطرات کو کم سمجھنے کے مترادف ہو سکتا ہے، جیسے کہ زیادہ شدید گرمی کی لہریں یا سمندری طوفان۔
ایک اہم عنصر جس پر سائنسدانوں نے غور کیا وہ ”ایل نینو” کا رجحان تھا۔ یہ ممکنہ طور پر 2023 اور 2024 کے دوران اضافی حدت میں نمایاں اضافہ کا سبب بنا، لیکن ہاؤسفادر کا کہنا ہے کہ اب تک، وہ توقع کر رہے تھے کہ ”لا نینا” کے دوران عالمی درجہ حرارت میں کم از کم 0.1 ڈگری سیلسیس کی کمی واقع ہو، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔
گزشتہ سال کی گرمی کے پیچھے اور بھی کئی عوامل ہو سکتے ہیں جو اب بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں ایک توقع سے زیادہ مضبوط شمسی چکر (سولر سائیکل) ہے، جو فضا میں کچھ اضافی شمسی توانائی پہنچا رہا ہے۔ مزید برآں، بحرالکاہل پر سفر کرنے والے بحری جہازوں اور مشرقی ایشیا کے بڑے صنعتی علاقوں سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ آلودگی میں یہ کمی سمندر کے اہم حصوں پر بادلوں میں کمی کا باعث بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ شمسی حرارت جذب ہو سکتی ہے۔
زیادہ تر ممالک نے 2015 کے پیرس معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ (3.6 ڈگری فارن ہائیٹ) سے کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی، اور مثالی طور پر اسے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھا جائے گا۔
لیکن ہر گزرتے سال کے ساتھ، جب فوسل فیول کے اخراج جاری ہیں، یہ ہدف مزید دور ہوتا جا رہا ہے، برگس کہتے ہیں۔ بین الاقوامی ماحولیاتی مذاکرات کے تحت بہت سے ممالک پر لازم تھا کہ وہ اس ہفتے تک نئے اور سخت تر قومی ماحولیاتی منصوبے جمع کرائیں، لیکن تقریباً تمام ممالک اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ صدر ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ امریکا کو اس معاہدے سے نکال رہے ہیں، تاہم معاہدے کی شرائط کے مطابق، اس عمل میں پورا ایک سال لگے گا۔
گزشتہ چند سالوں میں عالمی حدت کی بے مثال شدت اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ گرمی کے خطرات سائنس دانوں کی پہلے کی گئی پیش گوئیوں سے بھی زیادہ شدید ہو سکتے ہیں، ہوٹن کہتے ہیں۔
”بنیادی طور پر، میرا خیال ہے کہ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ جیسے جیسے زمین گرم ہو رہی ہے اور ہم مزید گرین ہاؤس گیسیں شامل کر رہے ہیں، کیا ایسے نئے طبعی عوامل ابھر رہے ہیں جنہیں ماحولیاتی ماڈلز مکمل طور پر نہیں سمجھ پا رہے اور جن کے لیے انسانی تصور بھی پوری طرح تیار نہیں ہے؟”۔