رپورٹ:شائرین رانا
اگر تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داری ادا کریں اور نوجوان قیادت کو شامل کیا جائے تو ہم زمین کو محفوظ اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔
دنیا کواس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کا شدت سے سامنا ہے جس میں پاکستان سرفہرست ہے۔ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنابھرپور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں دوآبہ فاونڈیشن، واٹرایڈ،برٹش کونسل اور جامعہ زکریا ملتان کے شعبہ فوڈ اینڈ سائنسزکے اشتراک سے جامعہ بہاؤ الدین زکریا ملتان میں تقریب منعقد کی گئی۔تقریب نوجوانوں کی قیادت پاکستان یوتھ لیڈرشپ انیشیٹوکی ماحولیاتی تحفظکے لیے کی گئی کاوشوں اور کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد کی گئی۔
تقریب کے مہمان خصوصی وائس چانسلر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر اقبال تھے، جبکہ ڈاکٹر محمد ریاض فیکلٹی آف فوڈ اینڈ نیوٹریشن سائنسز، ڈاکٹر توصیف سلطان، ڈاکٹر طارق اسماعیل،دوآبہ فاونڈیشن کے پروگرام منیجر جاوید اقبال تمیم،علی حسن دوآبہ فاؤنڈیشن،شازیہ سرور سمیت سول سوسائٹی، مختلف فلاحی اداروں کے نمائندے اور سوشل ورکرز بھی موجود تھے۔
تقریب میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے مختلف آئیڈیاز پیش کئے گئے۔اس موقع پر شرکا کو بتایا گیا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے دوآبہ فاونڈیشن، واٹرایڈاور برٹش کونسل کے تعاون سے نو جوانوں کی قیادت میں ایک اہم اقدام کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت 812نوجوانوں کو جن میں جامعہ زکریا ملتان اورلودھراں کیمپس کے علاوہ مختلف کمیونٹیزکوتربیت دی گئی ہے جس کے بعد نوجوانوں کو درج ذیل پانچ اہم ماحولیاتی موضوعات پر کام کرنے کا ہدف دیا گیا(پانی کا تحفظ، ٹھوس فضلہ مینجمنٹ، قابل تجدید توانائی کے ذرائع،شجر کاری، اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم)جس کا مقصد نوجوانوں کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے کے قابل بنانا ہے۔ ان سرگرمیوں میں 105نوجوانوں نے تربیت مکمل ہونے کے بعدماحول دوست سوشل ایکشن منصوبے بنائے اور اپنے پراجیکٹس کے ذریعے شرکت کی۔
تقریب میں نوجوانوں نے قدرت کے تحفظ کے حق میں قرارداد منظور کی۔اس موقع پر منعقد ہونے والے پینل ڈسکشن میں ڈاکٹر طارق اسماعیل،ڈاکٹر توصیف،ڈاکٹر شکیل احمد،ڈاکٹرشبیر احمدنے کہاکہ پاکستان دنیا میں گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں انتہائی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ بھگتنے والے ممالک میں شامل ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شجرکاری مہمات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیاجائے اور زیادہ درخت لگائے جائیں،جبکہ صاف توانائی (سولر، ونڈ انرجی) کو فروغ دیا جائے۔اسی طرح پانی اور بجلی کے کم استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
ری سائیکلنگ اور پلاسٹک کے کم استعمال کو عام کیا جائے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانی کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے جو انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ آلودہ پانی کے زیادہ دیر تک استعمال سے نہ صرف صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس سے قدرتی وسائل بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ماحولیاتی تحقیق کے مطابق اگر پانی کے اندر آلودگی کی شرح 6.9 فیصد سے تجاوز کر جائے تو یہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ پانی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں تاکہ شہریوں کو صاف پانی میسر آ سکے۔ پانی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے جدید سائنسی طریقے اپنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ مستقبل میں پانی کا بحران شدت اختیار نہ کرے۔ماہرین تعلیم نے یہ بھی کہا کہ ماحولیاتی تعلیم کو ابتدائی سطح پر نصاب میں شامل کرنے سے آئندہ نسلیں زیادہ باشعور اور ذمہ دار شہری بنیں گی، جو ماحولیاتی تحفظ میں اپنا موثر کردار ادا کر سکیں گی۔
ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی میں ماحولیاتی تعلیم کو بنیادی حیثیت دینا ہوگی تاکہ ہم ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔
اس موقع پر یوتھ لیڈرشپ کے ساتھ تمام شرکا سے حلف بھی لیا گیا کہ وہ بھی موحولیاتی تحفظ کیلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
حلف کے چیدہ چیدہ مندرجات درج ذیل تھے۔اس مہم کے تحت پائیدار ترقی کے اصولوں کو اپنانے، توانائی کے ضیاع کو روکنے، ماحولیاتی آلودگی کم کرنے، پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے اور نوجوانوں کو اس کارِ خیر میں شامل کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ پانی کے بچاؤکے لیے شعور اجاگر کرنے اور فضلہ کم کرنے کے عملی اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کے تحفظ اور ماحولیاتی بہتری کے لیے تمام طبقات کو مشترکہ طور پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اس موقع پر مستقبل میں مزید بہتری لانے اور پیداواری ترقی کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دینے پر بھی زور دیا گیا۔ یوتھ لیڈر شپ انیشیٹوکے تحت نوجوانوں کو آگے لا کر انہیں قومی ترقی میں شامل کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ ماحول کے تحفظ میں اپنا موثر کردار ادا کر سکیں۔ ماحولیاتی ماہرین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ پانی اور توانائی کے موثر استعمال کو یقینی بنائیں اور قدرتی وسائل کے ضیاع کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
تقریب کے آخر میں جاوید اقبال تمیم،منیجرپروگرامز دوآبہ فاؤنڈیشن نے کہا کہ درخت ہماری زندگی کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ ماحولیاتی توازن، انسانی صحت اور حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھتے ہیں۔ درخت نہ صرف آکسیجن فراہم کرتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی کو کم کرکے ہماری زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔جبکہ فوسل فیول کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہورہاہے کیوں کہ فوسل فیول جلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ (سی او ٹو) اور دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔
اس کے دھوئیں میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (سی او ٹو) اور نائٹروجن آکسائیڈ شامل ہوتے ہیں جو بارش کو تیزابی بنا سکتے ہیں۔فوسل فیول توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کے مضر اثرات کی وجہ سے دنیا قابل تجدید توانائی (ری نیوایبل اینرجی) کی طرف بڑھ رہی ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جا سکے اور ایک پائیدار مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ متبادل توانائی کے ذرائع میں شمسی توانائی،ہوا کی توانائی اور پن بجلی شامل ہیں۔درخت صرف پودے نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہیں۔ ان کے بغیر زمین بنجر اور زندگی ناممکن ہو جائے گی۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے اور انہیں بچانے کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند اور پائیدار مستقبل ممکن بنایا جا سکے۔
اسی طرح زیرو لیکوڈ ڈسچارج اور رین واٹر ڈسچارج دونوں پانی کے موثر استعمال اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔ زیرولیکوڈ ڈسچارج صنعتی سطح پر پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ رین واٹر ڈسچارج شہری اور دیہی علاقوں میں بارش کے پانی کی نکاسی اور ری سائیکلنگ سے متعلق ہے۔
اگر ان دونوں سسٹمز کو مناسب طریقے سے نافذ کیا جائے تو پانی کے ضیاع کو کم کر کے اسے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے جو کہ پانی کی قلت سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت، نجی ادارے، تعلیمی ادارے، سول سوسائٹی اور نوجوانوں کو ایک ساتھ آنا ہوگا۔ اگر تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داری ادا کریں اور نوجوان قیادت کو شامل کیا جائے تو ہم زمین کو محفوظ اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔