مضامین

پاکستان میں مینگروو جنگلات کے منصوبے: ایک امید، کئی چیلنجز اور شفاف عملدرآمد کی ضرورت

تحریر: کامران عباس
(ایڈیٹر، ماہنامہ منشور، ممبر ایگزیکٹو کمیٹی، ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز)

مینگروو جنگلات دنیا کے انوکھے ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہیں جو ماحولیاتی تحفظ، ساحلی علاقوں کی پائیداری، اور حیاتیاتی تنوع کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی بحیرہ عرب سے جڑی طویل ساحلی پٹی موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہے، جہاں حکومت اور نجی ادارے مینگرووز کی بحالی اور توسیع پر کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ منصوبے ایک مثبت سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن ان کی کامیابی کے لیے شفافیت، مقامی افراد کی شمولیت، اور مؤثر پالیسی کا نفاذ ناگزیر ہے۔


مینگروو جنگلات: ماحولیاتی تحفظ کی بنیاد

 کاربن جذب کرنے کی صلاحیت

مینگروو جنگلات زمین کے دیگر جنگلات کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کاربن جذب کرتے ہیں اور اسے صدیوں تک زمین میں محفوظ رکھتے ہیں، جو انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال بناتا ہے۔

قدرتی آفات میں حفاظتی کردار

پاکستان کے ساحلی علاقے اکثر سمندری طوفانوں، کٹاؤ اور پانی کی سطح میں اضافے سے متاثر ہوتے ہیں۔ مینگروو جنگلات ان علاقوں میں قدرتی حفاظتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں، جس سے نہ صرف انفراسٹرکچر محفوظ رہتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کی زندگیاں بھی محفوظ ہوتی ہیں۔

 حیاتیاتی تنوع اور معاشی مواقع

مینگرووز مچھلیوں، کیکڑوں اور جھینگوں کے لیے قدرتی مسکن فراہم کرتے ہیں۔ ان سے منسلک معاشی سرگرمیاں جیسے ماہی گیری، شہد کی پیداوار اور ماحولیاتی سیاحت، مقامی معیشت کو سہارا دیتی ہیں۔


پاکستان میں مینگروو تحفظ اور بحالی کے اقدامات

پاکستان، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان، میں مینگرووز کی بحالی کے حوالے سے دنیا کے چند کامیاب ممالک میں شامل ہے۔

:اہم اقدامات میں شامل ہیں

سندھ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی 1980 کی دہائی سے انڈس ڈیلٹا میں جاری شجرکاری مہم

“مینگروو فار دی فیوچر (ایم ایف ایف)” کا کمیونٹی بیسڈ تحفظ کا ماڈل

“بلین ٹری سونامی” کے تحت ساحلی شجرکاری

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اور آئی یو سی این جیسے اداروں کی سائنسی معاونت اور پالیسی سازی


کاربن کریڈٹس: ماحولیات سے معیشت تک

ڈیلٹا بلیو کاربن (ڈی بی سی) منصوبہ

2015 میں انڈس ڈیلٹا کیپیٹل (آئی ڈی سی) کے تحت شروع ہونے والے اس منصوبے نے 350,000 ہیکٹر رقبے پر مینگرووز بحال کرنے کا ہدف رکھا، جن میں سے 75,000 ہیکٹر 2020 تک بحال ہو چکے تھے۔ اس منصوبے نے 3.1 ملین کاربن کریڈٹس فروخت کر کے پاکستان کو 40 ملین ڈالر کی آمدنی فراہم کی۔

بین الاقوامی مثال: انڈونیشیا

انڈونیشیا نے 65 بلین ڈالر کا گرین اکنامی فنڈ متعارف کرایا، جس کی مالی معاونت کاربن کریڈٹس سے کی جا رہی ہے۔ وہاں 2023 میں “آئی ڈی ایکس کاربن” ایکسچینج قائم ہوا، جو 2025 تک بین الاقوامی سطح پر فعال ہو گیا۔ پاکستان اس ماڈل سے سیکھ کر اپنی کاربن مارکیٹ کو ترقی دے سکتا ہے۔


چیلنجز: شفافیت، پالیسی گیپ اور مقامی شراکت کی کمی

اگر کاربن کریڈٹ منصوبوں میں شفافیت نہ رکھی گئی، تو یہ بھی آئی پی پیز جیسے مالیاتی اسکینڈلز کی شکل اختیار کر سکتے ہیں، جنہوں نے گردشی قرضوں کے مسئلے کو کئی گنا بڑھا دیا۔

:اہم مسائل میں شامل ہیں

ڈیٹا کی عدم دستیابی: بیشتر منصوبوں کے فنڈز اور اثرات کی تفصیلات عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔

وسائل کا غیر منصفانہ استعمال: بدعنوانی اور عدم مساوی تقسیم کے خدشات موجود ہیں۔

مانیٹرنگ کی کمزوری: آزاد نگرانی کے نظام کی عدم موجودگی۔

پالیسی کے خلاء: قوانین کے باوجود ان پر عملدرآمد میں شدید کمزوری۔

ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی: سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بہتر روابط کی ضرورت۔

شفافیت کو فروغ دینا

پراجیکٹس کی پیش رفت اور فنڈنگ کا ڈیٹا عوام سے شیئر کیا جائے۔

آزاد مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔

مقامی افراد کی شمولیت

مقامی کمیونٹی کو فیصلہ سازی میں شامل کر کے ان کے لیے مراعاتی اقدامات کیے جائیں۔

مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ

کاربن کریڈٹ مارکیٹ کو شفاف بنایا جائے تاکہ ممکنہ مالی اسکینڈلز سے بچا جا سکے۔

پاکستان کے مینگروو منصوبے ماحولیاتی استحکام کی جانب ایک امید افزا قدم ہیں، لیکن ان کی پائیداری کا انحصار شفافیت، مؤثر عملدرآمد، اور مقامی شراکت پر ہے۔ اگر تمام اسٹیک ہولڈرز مربوط انداز میں کام کریں، تو پاکستان نہ صرف اپنے ساحلی علاقوں کو محفوظ بنا سکتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی قیادت بھی حاصل کر سکتا ہے۔

Leave a Comment