وردہ ممتاز (محقق – کلیمیٹ ایکشن سینٹر)
پلان کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکومت، نجی شعبہ، سول سوسائٹی اور عوام مل کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں یا نہیں۔
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر، طویل عرصے سے بے ہنگم شہری ترقی، غیر مؤثر بنیادی ڈھانچے، ماحولیاتی انحطاط اور ناقص شہری منصوبہ بندی جیسے مسائل کا شکار رہا ہے۔ ان چیلنجز کے حل کے لیے حکومتِ سندھ نے حال ہی میں ”گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047” (جی کے آر پی) کا باضابطہ آغاز کیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد کراچی کی دیرپا ترقی کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کرنا ہے، جس میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی رائے کو شامل کیا جائے گا۔
یہ منصوبہ ایک 25 سالہ حکمت عملی ہے جو رہائش، ٹرانسپورٹ، موسمیاتی تبدیلی، بنیادی ڈھانچے، اور پانی کے مؤثر انتظام جیسے شعبوں پر مرکوز ہوگا۔ اس کا باضابطہ افتتاح 13 فروری 2025 کو کیا گیا، جس میں مقامی حکومت کے وزیر سعید غنی، ڈی جی کے ڈی اے الطاف گوہر میمن، پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشد خان، مختلف شہری منصوبہ ساز، انجینئرز، سول سوسائٹی تنظیمیں، تعلیمی ماہرین اور میڈیا نمائندگان نے شرکت کی۔اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی مخصوص سیاسی جماعت، زبان یا طبقے سے منسلک نہیں ہوگا بلکہ کراچی کے تمام شہریوں کی ضروریات اور توقعات کو مدنظر رکھ کر تیار کیا جائے گا۔ منصوبے کے مشاورتی عمل کو دو سال تک جاری رکھا جائے گا، تاکہ تمام متعلقہ شعبوں سے آرا لی جا سکیں اور ایک جامع ماسٹر پلان تشکیل دیا جا سکے۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی کے ڈائریکٹر، یاسر حسین نے اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کراچی موسمیاتی تبدیلی کے شدید خطرات سے دوچار ہے، اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا موجودہ بنیادی ڈھانچہ ناکام ہو چکا ہے، اور سب سے پہلے اس کو درست کرنا ضروری ہے، تاکہ شہری نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس کے بعد ہی موسمیاتی چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔یاسر حسین نے اپنی تقریر میں دس کلیدی نکات پر روشنی ڈالی جو شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
ان میں سب سے اہم تجویز صوبائی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (سیپا) کو سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے ایک خودمختار اور فعال ادارہ بنانا تھا۔۔ انہوں نے مزید کہا کہ منصوبہ بندی اور ترقیاتی محکمے (پی اینڈ ڈی) کو نہ صرف شامل کیا جائے بلکہ اسے پہلی ترجیح پر رکھا جائے، کیونکہ فی الحال یہ کم ترجیح پر ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی اور ماحولیاتی عوامل کو اپنی ترجیحات میں اولین درجے پر رکھے اور جی کے آر پی کو اپنی پالیسی سازی میں مرکزی حیثیت دے، تاکہ ایک پائیدار اور ترقی یافتہ کراچی کا خواب تعبیر ہو سکے۔
افتتاحی تقریب میں ایک ورکشاپ کا بھی انعقاد کیا گیا، جہاں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے دس مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر اہم شہری مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ان گروپوں نے صحت، معیشت، بنیادی ڈھانچہ، ٹرانسپورٹ، قیادت، اور ماحولیاتی تحفظ جیسے موضوعات پر گفتگو کی اور کراچی کے مستقبل کے لیے ممکنہ حل تجویز کیے۔
تاہم، تقریب میں ایک مسئلہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اعلیٰ سرکاری حکام، جو مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیے گئے تھے، اپنے خطابات کے بعد جلدی واپس چلے گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر شرکاء بھی تقریب کے ابتدائی حصے میں شرکت کے بعد روانہ ہو گئے، جس کے باعث بعد کی مشاورت میں شرکت محدود ہو گئی۔ اگر کراچی کے مستقبل کے حوالے سے واقعی کوئی مؤثر منصوبہ تیار کرنا ہے، تو حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی مستقل شرکت کو یقینی بنائیں۔
گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047 ایک امید افزا قدم ہے، لیکن اس کے نفاذ کے لیے مربوط کوششوں اور مستقل نگرانی کی ضرورت ہے۔ مشاورتی عمل میں سول سوسائٹی، ماہرینِ تعلیم، اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ ماسٹر پلان تشکیل دیا جا سکے۔ کراچی پاکستان کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اگر اسے ایک جدید، پائیدار اور موسمیاتی لحاظ سے محفوظ شہر بنانا ہے، تو اس کے لیے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ گریٹر کراچی ریجنل پلان 2047 کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکومت، نجی شعبہ، سول سوسائٹی اور عوام مل کر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہیں یا نہیں۔