کنزیٰ نیسم خان (سی اے سی)
اگر پاکستان اپنی توانائی پالیسی میں اصلاحات نہیں لاتا، تو ملک کو صاف اور پائیدار توانائی کے سفر میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان میں توانائی کا شعبہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، حالانکہ حکومت اس کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جنوری 2024 میں مظفر گڑھ میں 600 میگاواٹ کے سولر منصوبے کے لیے کوئی بھی سرمایہ کار سامنے نہ آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال سرمایہ کاروں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کا دیرینہ اتحادی چین بھی اس منصوبے میں دلچسپی نہیں دیکھا رہا۔
چین کی سرمایہ کاری کے بدلتے رجحانات
2005 سے 2024 تک چین نے پاکستان میں تقریباً 68 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جس میں سے 74 فیصد توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہوا۔ زیادہ تر سرمایہ کاری 2015 میں سی پیک (سی پیک)کے تحت کی گئی، جس میں زیادہ تر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر زور دیا گیا۔ پاکستان میں 13 گیگاواٹ نئی بجلی پیدا کی گئی، لیکن اس میں سے 8 گیگاواٹ کوئلے سے جبکہ صرف 1.4 گیگاواٹ شمسی اور ہوا سے حاصل کی گئی۔
اب سی پیک (سی پیک) کے دوسرے مرحلے میں، مالی اور قانونی مسائل کی وجہ سے نئی سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے اپنی سرمایہ کاری کی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ مشرقِ وسطیٰ، سب صحارن افریقہ اور مشرقی ایشیا میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے۔ چین اب پاکستان کے بجائے انڈونیشیا جیسے ممالک میں بیٹری پروڈکشن اور منرل ریفائننگ جیسے شعبوں میں سرمایہ لگا رہا ہے۔
مالی مشکلات اور قانونی رکاوٹیں
پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی ایک اور بڑی وجہ مالی بحران اور قانونی رکاوٹیں ہیں۔ سی پیک (سی پیک) کے تحت بننے والے بجلی گھروں کے 1.4 ارب ڈالر کے واجبات باقی ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید کم ہو رہا ہے۔ پورٹ قاسم پاور کمپنی کو ہی 315 ملین ڈالر کی عدم ادائیگی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے کمپنی نے ڈیفالٹ کی وارننگ جاری کر دی ہے۔
پاکستان کا توانائی شعبہ ; سرمایہ کاری کے بحران کا شکار
پاکستان میں پہلے سے موجود چینی کمپنی، ”چائنا تھری گورجز گروپ”، جو کلین انرجی میں سرمایہ کاری کر رہی تھی، نے 2016 کے بعد پاکستان میں دوبارہ سرمایہ کاری نہیں کی اور اب مصر اور اردن جیسے ممالک میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔
سی پیک 2.0 اور پاکستان کا قابلِ تجدید توانائی کا مستقبل
سی پیک (سی پیک) کے دوسرے مرحلے میں صنعتی ترقی، زراعت اور ٹیکنالوجی پر زور دیا جا رہا ہے، لیکن اگر پاکستان اپنی سلامتی کی صورتحال، پالیسی میں عدم استحکام اور مالی مسائل حل نہ کر سکا، تو اسے مزید چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔ مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک زیادہ مستحکم قوانین اور معاشی استحکام فراہم کر رہے ہیں، اس لیے چین کی ترجیح اب وہ ممالک بن چکے ہیں۔
تاہم، پاکستان میں شمسی توانائی کی طلب بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں عالمی سولر کمپنی ”ٹرائناسولر” نے پاکستانی ڈسٹری بیوٹرز کے ساتھ معاہدے کیے ہیں تاکہ ملک میں جدید اور سستی شمسی توانائی کے حل فراہم کیے جا سکیں۔
حکومت کی قرضوں کی ادائیگی کی کوششیں
توانائی کے شعبے کے مالی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت 1.25 ٹریلین روپے (4.47 ارب ڈالر) کے قرضے کے لیے بینکوں سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس قرضے کی واپسی 5 سے 7 سال میں متوقع ہے اور یہ موجودہ 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتیں بڑھا کر گردشی قرضے کم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن مزید اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کے شعبے کو مالی طور پر مستحکم بنایا جا سکے۔
پاکستان کا توانائی شعبہ بحران کا شکار ہے، جہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے اور مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ سی پیک 2.0 پاکستان کے لیے صنعتی ترقی کے مواقع فراہم کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے سلامتی کی صورتحال، مالی مسائل اور قانونی رکاوٹوں کو حل کرنا ضروری ہوگا۔ اگر پاکستان اپنی توانائی پالیسی میں اصلاحات نہیں کرتا، تو ملک کو صاف اور پائیدار توانائی کے سفر میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔