محمد وحید اختر چوہدری
ماہرین ماحولیات کے مطابق پہلے ہی چڑیاں،کوے، فاختہ وغیرہ جیسے پرندے اور جنگلی کبوتر نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان بھر میں کچھ عرصہ سے گھروں میں پرندے پالنے اور جانور جیسے کہ بلی،کتا،خرگوش وغیرہ کا شوق کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔پہلے گھروں میں کبوتر یا صرف مرغے پالنے کا رواج تھا،چھتوں پر کبوتر پالنے کے شوقین حضرات بڑے بڑے پنجرے بنا کر کبوتر رکھتے تھے جن کی تعداد کئی سو ہوتی تھی یہ شوق اس وقت بھی مہنگا تھا اورآج مزید مہنگا ہو گیا ہے،لیکن کچھ عرصہ سے گھروں کی چھت پر کبوتر وغیرہ پالنے کے خلاف حکومت پنجاب نے کاروائیاں شروع کی ہوئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایک تو یہ معلوم ہوا ہے کہ کبوتر پالنے والے چھتوں پر مقابلہ کرتے ہیں اور جوا کھیلتے ہیں اور پھر جیت کی خوشی میں ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کرتے ہیں اس لیے پابندی لگتی ہے۔دوسرے ذرائع کے مطابق یہ معلوم ہوا ہے کہ جن علاقوں میں ایئر بیس ہیں یا ہوائی اڈے ہیں ان علاقوں میں حکام کے مطابق پرندوں کے اڑنے کی وجہ سے کئی حادثات ہو چکے ہیں اس لیے فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے کچھ عرصہ میں پنجاب میں شورکوٹ ایئر بیس،سرگودھا ایئر بیس،فیصل آباد ایئر بیس وغیرہ پر کنٹونمنٹ بورڈ کے ایریا میں رہائشی آبادیوں میں لوگوں کو گھروں کی چھت پر پرندے پالنے خاص کر کبوتر پالنے سے منع کیا جا رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کئی علاقوں میں وائلڈ لائف،بلدیہ پولیس،کنٹونمنٹ بورڈ کے افسران کی ٹیموں نے گھروں پر چھاپے مار کر وہاں پر موجود کبوتروں اور دیگر پالتو پرندوں کو قبضے میں لے لیا اور چھتوں پر موجود پنجرے بھی مکمل طور پر ختم کر کے گھروں کے مالکان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ذرائع کے مطابق یہ پرندے فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اس سیبھاری جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
جب ہم نے اس سلسلے میں کنٹونمنٹ بورڈ شورکوٹ کینٹ کے افسران سے اس بابت معلوم کیا تو انہوں نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ایک پائلٹ اور جہاز بنانے میں سرکار کا کروڑوں روپے خرچ ہوتا ہے لیکن ایک معمولی پرندہ اس سے ٹکرا کر اس کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے علاوہ ایئر بیس کے ارد گرد رہائشی لوگوں کو اپنے علاقوں میں جانوروں کے چھیچھڑے، کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینکنے پر بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ اس کو کھانے کے لیے کوے،چیلیں وغیرہ بڑے بڑے پرندے گد ھ آتے ہیں اور پھر جہاز سے ٹکرا جاتے ہیں جس سے جہاز تباہ ہو جاتا ہے جس میں کبھی کبھی پائلٹ بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
جب ہم نے اس سلسلے میں پولیس سے ان کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی تو پولیس کے افسران نے کہا کہ ہم تو صرف انتظامیہ کا ساتھ دیتے ہیں باقی اس سلسلے میں ہم کوئی موقف نہیں دے سکتے مزید براں ہم نے بلدیہ کے افسران سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب سمیت تمام ملک میں چھتوں پر پرندے پالنے اور ان کو اڑانے کے لیے قانون موجود ہے لیکن کچھ ایسے کبوتر باز چھتوں پر کبوتر اڑانے کے مقابلے کرتے ہیں جس میں جوا ہوتا ہے پھر اس دوران ہوائی فائرنگ بھی ہوتی ہے جس سے امن و امان کا بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کے علاوہ ایئر بیس کے علاقوں میں فلائیٹ سیفٹی کے حوالے سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور قیمتی قومی اثاث جات پائلٹ اور جہاز تباہ ہو جاتے ہیں جس کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔
جب اس سلسلے میں ہم نے ایئر فورس کے ریٹائرآفیسر کمانڈر صہیب فاروق سے فلائیٹسیفٹی کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ بات بہت درست ہے کہ پرندوں کی وجہ سے جہاز کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے کبھی کبھار جہاز بالکل تباہ ہو جاتا ہے اور پائلٹ کو بھی اتنا موقع نہیں ملتا کہ وہ جہاز سے بحفاظت نکل سکے اور وہ بھی ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔
کمانڈر صہیب فاروق نے مزید بتایا کہ جب ایئرپورٹ سے جہاز ٹیک آف کرتے ہیں چاہے وہ فوجی جہاز ہو یا مسافر جہاز اس سے پہلے ایئرپورٹ اتھارٹی نے تمام ایئرپورٹ پر ایسا انتظام کیا ہوتا ہے کہ خاص طریقے سے وقفے وقفے سے ارد گرد پرندوں کو دور بھگانے کے لیے مخصوص سائرن اور جدید طریقوں سے ایئرپورٹ کو کلیئر کیا جاتا ہے، زیادہ تر چانس وہاں ہوتا ہے جب جہاز ٹیک آف کرے یا لینڈ کرے فضا میں کیونکہ جہاز بہت زیادہ اوپر پرواز کرتا ہے اس لیے پرندوں کی رینج سے دور ہوتا ہے وہاں کم چانسز ہوتے ہیں لیکن جب جہاز نیچے سطح پر آتا ہے تو وہاں سیفٹی کے حوالے سے مسائل ہو سکتے ہیں اس لیے ہم سب کو فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے اور قومی اثاثوں کی حفاظت کے لیے مل کر سوچنا ہوگا۔
اس سلسلے میں جب ہم نے وائلڈ لائف محکمے کے ایک افسر سے پرندوں کی پکڑ دھکڑ سے بابت بات کی تو ان کا موقف تھا کہ ملکی سلامتی سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں اگر ایئر بیس کے علاقوں میں یا ایئرپورٹ کے علاقوں میں پرندوں کو چھتوں پر پالنے سے اور ہوائی فائرنگ کرنے سے قومی نقصان ہوتا ہے تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس سلسلے میں اداروں سے تعاون کریں۔
جب اس سلسلے میں ہم نے کبوتر پالنے والے ایک شوقین سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ چلو اس بات کو مان لیتے ہیں کہ کبوتر یا دیگر پرندوں سے جہاز یا پائلٹ کو نقصان ہوتا ہے مگر جو پرندے ٓ زاد ہیں اور فضا میں لاکھوں کی تعداد میں اڑتے رہتے ہیں ان کا کیا اس سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ کبوتر تو ایک چھوٹا سا پرندہ ہے فضا میں ایگل، چیل،کوے،گد ھ،جیسے بڑے بڑے پرندے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو زمین پرآتے ہیں کیونکہ زمین پر گندگی کھانے پینے کی اشیاء کوڑا کرکٹ ہم بہت زیادہ پھیلاتے ہیں اس بارے میں حکومت کو سوچنا چاہیے حکومت اور ذمہ دار ادارے فلائٹ سیفٹی کے نام پر یا ہوائی فائرنگ کے نام پر کبوتر جیسے پرندے کی پکڑ دھکڑ کی بجائے کوئی مستقللاہ عمل اپنائے تاکہ قومی نقصان سے بھی بچ جائے اور پرندوں کی پکڑ دھکڑ بھی نہ ہو سکے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق پہلے ہی چڑیاں،کوے، فاختہ وغیرہ جیسے پرندے اور جنگلی کبوتر نایاب ہوتے جا رہے ہیں جس سے نہ صرف ماحول خراب ہو رہا ہے بلکہ کئی پرندوں کی اقسام بھی نایاب ہو گئی ہیں ایسے اقدامات سے مزید خرابی پیدا ہو سکتی ہے، حکومت کو اس سلسلے میں بہتری کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول بھی قدرتی پرندوں کے ساتھ ساتھ بہتر ہو سکے اور پالتو پرندوں کی بقا بھی ممکن ہو سکے۔جب اس سلسلے میں ہم نے شور کوٹ کنٹونمنٹ بورڈ اورگودھا کنٹونمنٹ بورڈ سمیت کئی علاقوں کا دورہ کیا تو وہ عام علاقوں سے زیادہ صاف ستھرے تھے اور وہاں کوڑا کرکٹ بھی نہ ہونے کے برابر تھا ہم نے شہریوں سے بھی بات کی۔کنٹونمنٹ بورڈ کے رہائشی لوگوں سے بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اپنا کوڑا کرکٹ جس میں کھانے پینے کی اشیاں ہوں یا جن پر پرندے وغیرہ آتے ہیں وہ گھروں کے باہر نہ پھینکیں صرف کنٹونمنٹ بورڈ کی جو گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے آتی ہیں انہی کو ہی ہم دیتے ہیں جس سے نہ صرف صفائی ہوتی ہے بلکہ ہمارے فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے بھی مسائل پیدا نہیں ہوتے۔اس حوالے سے کنٹونمنٹ بورڈ کے افسران کا کہنا تھا کہ ہم روز مرہ کا کوڑا کرکٹ دور دراز علاقوں میں جدید طریقے سے ڈمپ کرتے ہیں تاکہ پرندے وہاں پر نہ آسکیں اور فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے بھی کوئی مسائل پیدا نہ ہو۔
ان کا مزیدکہنا تھا کہ ہم گوشت کی دکانوں پر خاص کر توجہ دیتے ہیں اور گوشت فروخت کرنے والوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا بچہ کچا گوشت اور چھچڑے وغیرہ پرندوں سے بچا کر محفوظ جگہ پر رکھیں اور ان کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے افسران کا کہنا تھا ویسے بھی اج کل گوشت کے چھیچھڑے،چربی وغیرہ فروخت ہوتی ہیں اور وہ مختلف چیزوں میں استعمال ہوتی ہیں جیسا کہ خوراک وغیرہ اس لیے بہت کم کچرا یا چھینچڑے قصائی کی دکانوں کے ارد گرد نظر ائیں گے وہ بھی آوارہ کتے وغیرہ کھا جاتے ہیں صرف عید قربان پر مسائل بڑھ جاتے ہیں کیونکہ ہر گھر میں قربانی ہوتی ہے لیکن ہم ان دنوں میں بھی ایک مہم چلاتے ہیں اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرتے ہیں کہ وہ جانوروں کے لاشے گلی محلوں میں پھینکنے کی بجائے کنٹونمنٹ بورڈ اور بلدیہ کی طرف سے فراہم گئے کیے گئے تھیلوں میں ڈال کر بلدیہ اور کنٹونمنٹ کی گاڑیوں میں رکھیں تاکہگدھ،کوے،چیل اور دیگر بڑے پرندے ان چھیچڑے اور لاشوں کو کھانے کے لیے زمین پر نہ آئیں تاکہ اس سے فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے کوئی مسائل پیدا نہ ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے پرندوں کی نسلیں بھی بقایا رہیں اور ملک کے قومی اثاثے بھی محفوظ رہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے ملک بھر میں آگاہی مہم چلائے اور اس کو نصاب کا حصہ بنائے تاکہ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے سٹوڈنٹ شروع سے ہی اس کے بارے میں آگاہ ہوں۔
(محمد وحید اختر چوہدری پی پی ائی نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں مختلف اخبارات میگزین سوشل میڈیا پر مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)