فروزاں رپورٹ
پلاسٹک آلودگی: ایک خاموش ماحولیاتی بحران جو ہماری صحت، معیشت اور فطرت کو نگل رہا ہے۔
سندھ حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھاتے ہوئے صوبے بھر میں تمام اقسام کے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ محکمہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی و ساحلی ترقی کے مطابق یہ پابندی 15 جون 2025 سے نافذالعمل ہو گی اور اس کا اطلاق نان ڈیگریڈیبل، اوکسو ڈیگریڈیبل، سیاہ رنگ اور ری سائیکل شدہ پلاسٹک بیگز پر بھی ہو گا۔
یہ فیصلہ اپریل 2025 میں صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد سامنے آیا، جب 2014 کے “سندھ پرہیبیشن آف نان ڈیگریڈیبل پلاسٹک پروڈکٹس رولز” میں ترمیم کی گئی۔ اس سے قبل 2019 میں مخصوص وزن و سائز کے تھیلوں پر جزوی پابندی لگائی گئی تھی، جو اب مکمل پابندی میں تبدیل ہو چکی ہے۔
پلاسٹک ویسٹ: ایک بڑھتا ہوا قومی مسئلہ
پاکستان سالانہ 3 ملین ٹن سے زائد پلاسٹک کچرا پیدا کرتا ہے، لیکن اس میں سے محض 3 سے 5 فیصد ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ سندھ کے بڑے شہروں، خصوصاً کراچی، سکھر، حیدرآباد، بدین اور ٹھٹھہ میں پلاسٹک آلودگی شہری انفراسٹرکچر اور فطری وسائل کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ صرف کراچی میں روزانہ 20 ہزار ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے، جس کا 60 فیصد حصہ پلاسٹک پر مشتمل ہے۔
ساحلی ماحولیاتی نظام پر پلاسٹک کا اثر
سمندری حیات پلاسٹک آلودگی سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ساحل پر مرنے والے ہر پانچویں کچھوے کی موت کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک نگلنا ہے۔ مچھلیاں اور دیگر جاندار پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں، جو بعد میں انسانوں کی خوراک کا حصہ بنتے ہیں۔
انسانی صحت کو لاحق خطرات
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق مائیکرو پلاسٹک ذرات انسانی ہارمونی نظام، جگر، گردوں اور دل پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔ سندھ کے متعدد علاقوں کے پینے کے پانی میں مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی سامنے آ چکی ہے، جو خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہی گیری اور سیاحت کی صنعتوں کو نقصان
سندھ کی ماہی گیری ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، مگر پلاسٹک کی آلودگی مچھلیوں کی افزائش اور معیار پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ ماہی گیر اکثر ایسے جال واپس لاتے ہیں جن میں مچھلی کے بجائے کوڑا ہوتا ہے۔ ساحلی سیاحتی مقامات جیسے ہاکس بے، منوڑہ، کینجھر جھیل اور مبارک ولیج پر بھی پلاسٹک کچرا سیاحوں کے تجربے کو متاثر کرتا ہے۔
عملدرآمد کا چیلنج
اگرچہ 2019 میں بھی حکومت سندھ نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کا اعلان کیا تھا، مگر مؤثر عملدرآمد نہ ہونے کے سبب یہ پابندی ناکام رہی۔ آج بھی مارکیٹوں، ہوٹلوں اور دکانوں پر سستے پلاسٹک بیگز باآسانی دستیاب ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اپنی سطح پر آگاہی مہمات چلا رہی ہیں، لیکن حکومتی مدد کے بغیر ان کی پہنچ محدود ہے۔
حل کی جانب اقدامات
اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے:
پلاسٹک تھیلوں پر مکمل اور سخت پابندی کا نفاذ
کوڑا الگ کرنے کا نظام (ویسٹ مینیجمنٹ)
ری سائیکلنگ انڈسٹری کو مراعات و سبسڈی
ساحلی علاقوں میں عوام کی تربیت و متبادل روزگار
اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی تعلیم کا فروغ
حکومتی عزم اور اپیل
سیکریٹری ماحولیات آغا شاہنواز خان نے اس اقدام کو آئندہ نسلوں کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا۔ ان کے مطابق، پلاسٹک بیگز ہمارے ماحول کے لیے زہر ہیں اور اس پابندی پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے گا۔ خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی اور کسی کو رعایت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے شہریوں، صنعتکاروں، تاجر برادری اور انتظامیہ سے اس مہم میں شریک ہونے کی اپیل کی ہے تاکہ سندھ کو پلاسٹک فری اور سرسبز خطہ بنایا جا سکے۔
پلاسٹک آلودگی ایک ایسا خاموش قاتل ہے جو ہماری زمین، صحت، خوراک، اور معیشت کو آہستہ آہستہ تباہ کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی سنجیدگی نہ دکھائی تو کل ہم خود پلاسٹک کے سمندر میں ڈوب جائیں گے — کیونکہ یہ عذاب ہم نے خود اپنے لیے تخلیق کیا ہے۔