مضامین

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اٹھتی آوازیں

تحریر: خلیل رونجھو

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف بلوچستان کے نوجوانوں اور اداروں کی جدوجہد۔

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، جو اپنی خشک پہاڑی زمینوں، نیم صحرائی آب و ہوا، اور قدرتی وسائل کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے، اب موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کی لپیٹ میں ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، بے ترتیب بارشیں، سیلاب، اور طویل خشک سالی نے نہ صرف زرعی نظام اور آبی وسائل کو متاثر کیا ہے بلکہ مقامی آبادی کی روزمرہ زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔

ان سنگین حالات کے پیش نظر، حکومت بلوچستان نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط پالیسی متعارف کروائی ہے، جس میں ماحولیاتی تحفظ، پانی کے بہتر استعمال، اور قابلِ تجدید توانائی کے فروغ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اور نوجوان رضاکار بھی ان خطرات سے نمٹنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، جو قابلِ تحسین ہے۔

کلائمیٹ کانفرنس کوئٹہ: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی مثال

فورم فار ڈگنٹی انیشی ایٹوز (ایف ڈی آئی) پاکستان اور وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے اشتراک سے بیوٹمز یونیورسٹی، کوئٹہ میں ایک اہم کلائمیٹ کانفرنس منعقد ہوئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان، میر سرفراز بگٹی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ اگرچہ بلوچستان گلوبل وارمنگ کا براہِ راست سبب نہیں، لیکن اس کے اثرات یہاں شدید محسوس کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر اس چیلنج کا دیرپا حل تلاش کرے گی۔

کانفرنس میں شریک طلبہ نے ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کیں، جنہیں سراہا گیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر رومینا خورشید عالم، سینیٹر ثمینہ ممتاز، راحیلہ حمید خان درانی، اور سیکریٹری جنگلات دوستین جمالدینی بھی موجود تھے۔

لسبیلہ میں وانگ کی قابلِ قدر کوششیں

لسبیلہ کی معروف غیر سرکاری تنظیم “وانگ” نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف آگاہی مہم کے تحت مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا۔ ان میں کلائمیٹ مارچ، کمیونٹی ڈائیلاگ، اور تقریری مقابلے شامل تھے۔ طلبہ، ماہرین ماحولیات اور سماجی کارکنان نے مارچ میں شرکت کی اور عوامی شعور کو اجاگر کیا۔

ماہرین نے واضح کیا کہ بلوچستان کا کاربن اخراج بہت کم ہونے کے باوجود یہ صوبہ شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہے۔ مقررین نے پائیدار حکومتی اقدامات اور عوامی شرکت کو ماحولیاتی بہتری کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ معروف ماحول دوست شخصیات شبینہ فراز، لبنہ فراز اور سعدیہ عبید نے بھی ان سرگرمیوں میں خصوصی شرکت کی۔

گوادر بک فیسٹیول: علم اور ماحول کا سنگم

گوادر کی رورل کمیونٹی ڈیولپمنٹ کونسل (آر سی ڈی سی) کی جانب سے منعقدہ سالانہ کتب میلے میں اس سال موسمیاتی تبدیلی کو مرکزی موضوع بنایا گیا۔ ماہرین، دانشوروں، مصنفین اور صحافیوں نے بلوچستان کے ماحول، ساحلی علاقوں، اور قدرتی حیات پر موسمیاتی اثرات پر مفصل گفتگو کی۔

فیسٹیول میں ماحولیاتی مسائل پر سائنسی، معاشی، اور سماجی پہلوؤں سے بات کی گئی۔ ماہرین نے پائیدار زراعت، پانی کے انتظام اور مقامی برادریوں کو شامل کرنے کی تجاویز پیش کیں، تاکہ ماحولیاتی تبدیلی سے بہتر طور پر نمٹا جا سکے۔

نوجوان لیڈرز: موسمیاتی تحفظ کی نئی امید

بلوچستان کے نوجوان بھی اس مہم کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ تین نمایاں نوجوان ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف فرنٹ لائن پر سرگرم ہیں

روبینہ بلوچ (کوئٹہ): یوتھ آرگنائزیشن کے تحت شجرکاری مہم کی قیادت کی، خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا، اور قومی سطح پر “کلائمٹ چیمپئنز ایوارڈ” حاصل کیا۔

آفتاب رونجھو (لسبیلہ): ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے “جینڈر کلائمٹ چیمپئن ایوارڈ” حاصل کیا۔ وہ نوجوانوں میں ماحولیات سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

زنیرہ قیوم بلوچ (حب): 14 سالہ ماحولیاتی ایڈووکیٹ، جنہیں یونیسیف نے یوتھ ایڈووکیٹ مقرر کیا ہے۔ وہ کوپ 29 میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے، لیکن حکومت، غیر سرکاری ادارے، اور نوجوان نسل اسے شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کوششوں کو مزید وسعت اور پذیرائی دے کر ہم ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

Leave a Comment