مضامین

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی: حقیقت کا سامنا یا تباہی کا انتظار؟

تحریر: صفوان شہاب احمد

پنجاب اور سندھ کے شہر ناقابل رہائش بنتے جا رہے ہیں: کیا ہمیں پوٹھوہار کی طرف ہجرت کرنی چاہیے یا ابھی بچاؤ کا وقت ہے؟

پیٹر کالمس ایک معروف ماحولیاتی سائنسدان ہیں جنہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر گہری تحقیق کی ہے۔ 2022 میں، انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ لاس اینجلس جیسے علاقے جنگلاتی آگ کی شدت میں اضافے کا سامنا کریں گے۔ 2025 میں وہاں لگنے والی آگ، جس نے 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی پیش گوئیاں اکثر درست ثابت ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنا اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا نہایت ضروری ہے۔

!ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں

پیٹر کالمس جیسے ماحولیاتی سائنسدان ہمیں مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ ہمارا سیارہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ یا تو اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں یا بہانے بنا رہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم حقیقت کا سامنا کریں اور عملی اقدامات کریں، ورنہ ہمیں اپنی تباہی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔جنوبی پنجاب اور سندھ: ناقابل رہائش ہونے کے قریب ہیں،اگر فیصل آباد، لاہور، ملتان، اور کراچی جیسے علاقے پندرہ سالوں میں ناقابل رہائش ہو جائیں، تو ہم کہاں جائیں گے؟

:جنوبی پنجاب اور سندھ کے نشیبی علاقے، اور جنگلات کی بحالی کے ذریعے حل

ماحولیاتی تبدیلی ایک سنگین عالمی مسئلہ بنتی جا رہی ہے، لیکن اس کے اثرات سب سے زیادہ کم بلندی، گرم اور خشک علاقوں پر پڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں پنجاب کے نشیبی علاقے (خاص طور پر فیصل آباد، لاہور، اور ملتان ڈویژن) اور سندھ کے ساحلی اور اندرونی علاقے (خاص طور پر کراچی) تیزی سے ناقابل رہائش ہوتے جا رہے ہیں ہے ہیں۔سائنسدانوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسز کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا، تو پاکستان کے یہ علاقے شدید ماحولیاتی مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔ گرمی کی شدت، پانی کی قلت، ہیٹ ویوز اور دیگر ماحولیاتی آفات کی وجہ سے یہ علاقے آئندہ پندرہ سالوں میں انسانی رہائش کے قابل نہیں رہیں گے۔

:جنوبی پنجاب اور سندھ میں ماحولیاتی خطرات

 :ہیٹ ویوز میں اضافہ

فیصل آباد، ملتان، لاہور، اور کراچی میں گرمی کی شدت مسلسل بڑھ رہی ہے، جو انسانوں، جانوروں اور زراعت پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔

:پانی کی قلت

دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، نہری نظام متاثر ہو رہا ہے، اور زیر زمین پانی کی سطح بھی درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے تیزی سے گر رہی ہے۔

:فضائی آلودگی اور کاربن کے اخراج میں اضافہ

صنعتی آلودگی، گاڑیوں کے دھوئیں اور درختوں کی کٹائی کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے درجہ حرارت مزید بڑھ رہا ہے۔

 :ساحلی علاقوں میں سمندری سطح میں اضافہ

کراچی اور ٹھٹھہ میں زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے، کیونکہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور زمین میں نمکیات بڑھ رہی ہیں۔

:ماحولیاتی نقل مکانی

اگر یہ حالات برقرار رہے تو لاکھوں لوگ ان علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس سے دیگر شہروں پر دباؤ بڑہے گا جس کے نتیجے میں معاشی و سماجی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

جنگلات کی بحالی: ایک ممکنہ حل

درختوں کی بڑے پیمانے پر شجرکاری ماحولیاتی مسائل کا سب سے مؤثر، پائیدار اور کم لاگت حل ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ دیسی درختوں کو ترجیح دی جائے، کیونکہ یہ زیادہ مزاحم ہوتے ہیں اور قدرتی ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

:جنوبی پنجاب میں لگائے جانے والے درخت


شیشم (ڈالبیرجیا سسو) بیری (زیزیفس ماوریشیانا)، کیکر (ویچیلیا نیلوٹیکا)، پیپل (فیکس ریلیجیو سا)، برگد (فیکس بنگھالینسس)

:سندھ اور کراچی میں لگائے جانے والے درخت


نیم (ازادریچٹا انڈیکا)، کنیر (نیریئم اولیینڈر)، مینگرووز (ایویسینیا میرینا) – ساحلی علاقوں کے لیے
جھنڈ (پروسوپس سینریا)، پیلو (سالویڈورا اولیوئیڈز)

درخت لگانے کے طریقے

شہری جنگلات اور سبز پٹیاں


شہروں میں سڑکوں کے کنارے، خالی زمینوں اور سبز پٹیوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں۔

زرعی علاقوں میں جنگلاتی کاشتکاری


کسانوں کو اپنے کھیتوں میں درخت اگانے کی ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ انہیں مالی فائدہ بھی ہو اور جنگلات کی بحالی بھی ہو سکے۔

ساحلی علاقوں میں مینگرووز کی بحالی


کراچی اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں مینگرووز کے جنگلات لگانے سے سمندری سطح میں اضافے اور طوفانوں کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

بارش کے پانی کو محفوظ کرنا


درختوں کی شجرکاری کے ساتھ ساتھ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے بھی شروع کیے جانے چاہئیں تاکہ زیرِ زمین پانی کی سطح کو بحال کیا جا سکے۔

ماحولیاتی نقل مکانی کو کیسے روکا جائے؟


اگر بڑے پیمانے پر شجرکاری کی جائے تو یہ علاقے “گرمی جذب کرنے والے مراکز” میں تبدیل ہو سکتے ہیں، یعنی ایسے مقامات جہاں درجہ حرارت کم ہو، آکسیجن کی سطح زیادہ ہو، اور ماحولیاتی اثرات متوازن رہیں۔ اس طرح لوگ اپنے علاقوں میں رہ سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ماحولیاتی نقل مکانی کو روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے پاس بہت کم وقت بچا ہے۔ اگر ہم ابھی شجرکاری، پانی کے انتظام، اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبے شروع کر دیں تو ہم فیصل آباد، ملتان، لاہور، کراچی اور دیگر متاثرہ علاقوں کو ناقابلِ رہائش ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر شہری، کسان، اور صنعتکار کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس موقع کو ضائع کر دیا، تو آئندہ پندرہ سالوں میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو جائیں گے، زراعت تباہ ہو جائے گی، اور بڑے شہر شدید بحران کا شکار ہو جائیں گے۔

Leave a Comment