مضامین

موسمیاتی تبدیلی: پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کا خودکشی پر مبنی رویہ — ایوی کلچر کا مستقبل خطرے میں

صفوان شہاب احمد

یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم عقل و دانش کے ساتھ چلیں گے یا ادارہ جاتی انا اور لاعلمی کے ہاتھوں اپنی خودی اور معیشت کا گلا گھونٹیں گے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں بیروزگاری، غربت، اور معاشی عدم استحکام پہلے ہی عام ہے، وہاں ایسے شعبے جو کم وسائل کے باوجود لوگوں کو روزگار، ذہنی سکون، اور ثقافتی وابستگی فراہم کرتے ہیں، انہیں ختم کرنا گویا معاشرتی خودکشی کے مترادف ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایگزوٹک پرندوں جیسے میکاو، کاکاٹو، ترکی، خوبصورت کبوتر، رنگ برنگے مرغیاں، شترمرغ اور فنچز کی ضبطی کے واقعات نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔

ہزاروں سال پرانی روایت، جدید دور کا شوق

پرندے پالنا اور ان کی افزائشِ نسل انسانی تاریخ کا قدیم ترین شوق ہے۔ برصغیر میں تو اس شوق کو ہزاروں سال پرانی ثقافتی بنیادیں حاصل ہیں۔ جدید دور میں یہ شوق صرف تفریح تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک ہنر، کاروبار، اور گھر بیٹھے روزگار کا ذریعہ بن چکا ہے جسے ”ایوی کلچر” کہا جاتا ہے۔

گھر گھر ایوی کلچر — ایک گھریلو صنعت

ہزاروں پاکستانی، خصوصاً نوجوان اور خواتین، ایوی کلچر کے ذریعے نہ صرف روزگار حاصل کر رہے ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے ملک کے لیے زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ یہ ایک گھریلو صنعت ہے، جس میں کم سرمائے سے قیمتی نسلوں کی افزائشِ نسل ممکن ہوتی ہے۔

وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی لاعلمی یا لاپرواہی؟

بدقسمتی سے پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ کارروائیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ادارہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین سے لاعلم ہے بلکہ جنگلی حیات(وائلڈ لائف) اور گھریلو پالتو پرندوں میں فرق کرنے سے بھی قاصر ہے۔ میکاو یا کاکاٹو جیسے پرندے پاکستان کے جنگلات کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ نسلیں یا تو مکمل طور پر گھریلو ہو چکی ہیں یا پھر وہ جنگلی حیات کی کیٹیگری میں آتی ہی نہیں۔

ایک قومی مکالمے کی ضرورت

یہ وقت ہے کہ ہم ایک قوت، ایوی کلچرسٹس، وکلاء، قانون ساز ادارے، اور مقامی کمیونٹی شامل ہومی سطح پر مکالمے کا آغاز کریں جس میں ماہرینِ حیاتیات، ایوی کلچرسٹ،وکلا،قانون ساز ادارے اور مقامی کمیونٹیز شامل ہوں تا کہ

 جنگلی اور گھریلو نسلوں میں واضح فرق کو قانون سازی کے ذریعے واضح کیا جا سکے ایوی کلچر کو ایک مکمل صنعت کے طور پر تسلیم کیا جا سکے۔

 حیاتیاتی تحفظ اور معاشی تحفظ میں توازن قائم کیا جا سکے

نوجوانوں کو بے روزگار ہونے سے بچایا جا سکے

ملکی سطح پر ماحولیاتی تعلیم اور ایوی کلچر تربیت مراکز قائم کیے جا سکیں

قانون سازی اور پالیسی کی اشد ضرورت

اب وقت ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت فوری طور پر ایوی کلچر سے متعلق واضح اور مؤثر قانون

سازی کرے، جس میں

 ایگزوٹک پرندوں کی فہرست واضح ہو

 رجسٹریشن اور لائسنسنگ کا آسان طریقہ کار ہو

 بلاوجہ اور غیرقانونی ضبطی کی روک تھام ہو

 مقامی بریڈرز اور پرندوں سے محبت کرنے والوں کو تحفظ دیا جائے

ایوی کلچر صرف ایک شوق یا کاروبار نہیں بلکہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کی امید اور روزگار کا ذریعہ ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور دیگر اداروں کی نااہلی اور سخت گیر پالیسیاں ایک ایسی تباہی کو جنم دے رہی ہیں جو نہ صرف معاشی بحران پیدا کرے گی بلکہ ایک خوبصورت ثقافتی ورثے کو بھی مٹا دے گی۔

ہمیں بحیثیت قوم اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم عقل و دانش کے ساتھ چلیں گے یا ادارہ جاتی انا اور لاعلمی کے ہاتھوں اپنی خودی اور معیشت کا گلا گھونٹیں گے۔

Leave a Comment