مضامین

موسمیاتی انتباہ کی گھنٹیاں

ربیعہ ارشد ترکمان

مسلح تنازعات چاہے کتنے ہی مختصر کیوں نہ ہوں طویل المدتی ماحولیاتی بگاڑ کے نتائج کو جنم دیتے۔

عید کے بعد جب پاکستان کے محکمہ موسمیات نے پنجاب کے بڑے شہروں جیسے لاہور اور ملتان میں شدید گرم لہر کی پیش گوئی کی، تو درجہ حرارت نے خطرناک حدوں کو چھو لیا اور بعض علاقوں میں یہ 49 درجے سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا۔ بظاہر ان شہروں میں کسی براہ راست فوجی تصادم کی اطلاع نہیں ملی، تاہم ماہرین ماحولیات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگی کارروائیوں کے دوران فضائی حدود میں اُڑتے جنگی طیارے اور زمینی سطح پر دھماکوں سے جو آلودگی پھیلتی ہے، وہ نہ صرف درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہے بلکہ فضا کے توازن کو بھی مستقل طور پر بگاڑ سکتی ہے۔

دھماکے اور جیٹ ایندھن: دیرپا اثرات

فارمن کرسچن کالج سے منسلک ایم فل اسکالر فاطمہ عتیق، جو موسمیاتی تبدیلی کی ماہر اور نصابی مشیر بھی ہیں، اپنی تحقیق میں لکھتی ہیں کہ:

“فوجی ٹکراؤ خواہ چھوٹے پیمانے پر ہو، اس کے فوری اثرات کم محسوس ہوں، لیکن جیٹ ایندھن کا دھواں، دھماکہ خیز مواد، اور جدید برقی جنگی آلات فضا کو آلودہ، زمین کو زہریلا اور حیاتیاتی تنوع کو کمزور کرتے ہیں۔”

فاطمہ عتیق اپنی تحقیق میں میڈیا کی رپورٹنگ کے انداز کو بھی جانچتی ہیں کہ کس طرح اسرائیل و فلسطین کے تنازع میں ماحولیاتی اثرات مثلاً درختوں کی کٹائی، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور ایندھن کے بڑھتے استعمال کو کمزور انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کے مطابق، اگر میڈیا ان پہلوؤں پر توجہ دے، تو پائیدار امن کی طرف پیش قدمی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔

عالمی تحقیق کی روشنی میں جنگ اور ماحول

عالمی سطح پر ہونے والی کئی تحقیقات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جنگی کارروائیاں صرف انسانی جانوں کا زیاں نہیں لاتیں بلکہ ماحولیاتی تباہی کا بھی ذریعہ بنتی ہیں۔

تحقیق “گولیوں سے پرے: جنگ کا ماحولیاتی نقصان” اس نکتے کو اجاگر کرتی ہے کہ دھماکوں سے پیدا ہونے والی آلودگی نہ صرف فضا کو متاثر کرتی ہے بلکہ مٹی اور پانی میں زہریلے عناصر کا اضافہ کرتی ہے۔

یورپ میں ہونے والی تحقیق “مسلح تنازعات کے ماحولیاتی اثرات” بتاتی ہے کہ جنگ کے دوران ایندھن کا بے دریغ استعمال اور قدرتی وسائل کی بربادی موسمیاتی تبدیلی کو تیز کرتی ہے۔

افریقی خطے پر تحقیق “رواں ریت” واضح کرتی ہے کہ تنازعات سے متاثرہ خشک علاقوں میں پانی کی قلت اور ماحولیاتی تباہی کی شدت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

یہ تمام تحقیقی مطالعات ایک ہی حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لڑتی جاتی بلکہ اس کا محاذ فضا، زمین، پانی اور انسانی ذہنوں میں بھی قائم ہوتا ہے۔

پاکستان کے سرحدی علاقوں کا زمینی حال

پاکستان کے سرحدی خطوں، خاص طور پر آزاد جموں و کشمیر، میں جاری جھڑپیں اور گولہ باری نہ صرف انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ ماحولیاتی بگاڑ کو بھی جنم دیتی ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان علاقوں کے باسی جنگی ماحول، خوف اور مسلسل دباؤ میں جیتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تباہی، بنیادی سہولیات کی قلت، اور ماحول کی بحالی کا عمل پیچھے رہ جاتا ہے، جو آئندہ نسلوں کے لیے ایک نامکمل ورثہ بن کر رہ جاتا ہے۔

ذہنی صحت اور ماحولیاتی خرابی: ایک ساتھ بڑھتے بحران

ڈاکٹر ماہنور منور، جو ایک نفسیاتی مرکز سے وابستہ ہیں، بتاتی ہیں کہ “نفسیاتی جنگ، جھوٹی خبریں، اور سماجی تفریق” افراد میں اضطراب، ناامیدی اور ذہنی دباؤ کو بڑھاتی ہیں۔ اسی طرح بشریٰ رانی کہتی ہیں کہ “سرحدی علاقوں میں لوگ مسلسل خوف کی فضا میں جیتے ہیں، جہاں بچوں اور حاملہ خواتین پر منفی اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔” جب انسانی ذہن خوف میں ہو، تو وہ ماحولیاتی مسائل پر توجہ نہیں دے پاتا، یوں مسئلہ دوہرا ہو جاتا ہے۔

عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف

بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگ کے بعد ماحول کی بحالی پر توجہ نہ دی گئی، تو نقصان ناقابلِ تلافی ہو جائے گا۔ ماہر تاریخ دان ڈیگروٹ نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا کہ جنگ بے گھر ہونے کا سبب بنتی ہے، جس سے فطری وسائل پر مزید دباؤ بڑھتا ہے۔ اس لیے عالمی امن فورسز اور فوجی اتحادوں کو چاہیے کہ وہ جنگی علاقوں میں ماحول کی بحالی کو اپنی ترجیح بنائیں۔

ماحولیاتی قتال: ایک قابلِ سزا جرم

ماحولیاتی ادارے اور قانون ساز اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ “ماحولیاتی قتال” یعنی ماحول کو جنگ کے دوران تباہ کرنا، ایک مجرمانہ فعل تسلیم کیا جائے۔ جس طرح انسانی قتل کی سزا ہے، اسی طرح زمین کے ساتھ ناانصافی پر بھی سزا ہونی چاہئے۔

امن کا نیا تصور

امن کا مطلب صرف جنگ بندی نہیں بلکہ وہ عمل ہے جس میں

فضا، پانی اور زمین کے معیار کو بہتر بنایا جائے

قدرتی حیات کو بچایا جائے

جنگی سرگرمیوں کے ماحولیاتی اثرات کی نگرانی ہو

متاثرہ علاقوں کی مالی و تکنیکی مدد ہو

جنوبی ایشیا، خاص طور پر پاکستان، ایک قدرتی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ برف پگھل رہی ہے، سطحِ سمندر بلند ہو رہی ہے، اور گرم ہوائیں انسانی صحت کو متاثر کر رہی ہیں۔ اگر یہاں بھی ماحولیات کو نظرانداز کیا گیا، تو یہ خطہ صرف سیاسی یا عسکری نقصان کا نہیں، ماحولیاتی تباہی کا بھی مرکز بن جائے گا۔

پالیسی سازوں کے لیے سفارشات

جنگ کے دوران ماحولیاتی تحفظ کو مذاکرات کا حصہ بنایا جائے

پاکستان اور بھارت اپنی قومی پالیسیوں میں ماحول کو اولیت دیں

ذرائع ابلاغ کو ماحولیاتی خبروں کو جنگی بیانیے کا لازمی جزو بنانا ہوگا

متاثرہ علاقوں میں ماحولیاتی بحالی کی اجتماعی ذمہ داری تسلیم کی جائے

عالمی قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، خصوصاً “ماحولیاتی قتال” کو جرم قرار دیا جائے

Leave a Comment