مضامین

کھیتوں سے سمندر تک: سندھ کے ایک گاؤں کی کہانی

 

تحریر: سمیعہ خورشید

یہ صرف ایک گاؤں کی نہیں، بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی، حکومتی غفلت اور معاشی ناانصافی کا نوحہ ہے۔

صوبہ سندھ کا ساحلی گاؤں جو کہ پاکستان کا آخری گاؤں بھی ہے اب آخری سانسیں لے رہا ہے کیونکہ یہاں ایک خاموش انسانی اور ماحولیاتی بحران گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ علاقہ کبھی زرعی لحاظ سے خوشحال ہوا کرتا تھا، مگر کلائمیٹ چینج او سمندری طوفان نے نہ صرف گھروں اور ڈھانچے کو تباہ کیا، بلکہ سمندر کا پانی زمینوں میں داخل ہو گیا اور ہزاروں ایکڑ زرعی رقبہ چاٹ گیا۔نمکین سمندری پانی نے زمین کو بنجر کر دیا، جس کے نتیجے میں کسانوں کو اپنی زمینیں چھوڑ کر روزگار کے لیے ماہی گیری کی طرف جانا پڑا۔ ناتجربہ کار ماہی گیر روزگار کمانے میں ناکام اور عارضی نقل مکانی کرنے پہ مجبورہوئے۔

جمعو کبھی اپنی زمین اور کھیتوں کے مالک تھے مگر اب دو وقت کی روٹی کمانے سے قاصر ہیں جمعو نے بتایا ان کے چھ بچے ہیں جس زمین پہ کبھی لہلہاتے کھیت تھے موسمیاتی تبدیلی کے سبب اب وہ زمین سمندر نے نگل لی ہے اور اب وہ وہاں ماہی گیری کررہے ہیں بچوں سمیت مچھلی اور کیکڑہ پکڑ کر کراچی اور بدین بیچنے چاتے ہیں ان کا کہنا تھا 12 سے 15 سال ہوگئے ہیں زراعت کا پیشہ چھوڑے اور ماہی گیری کا پیشہ اپنائے، ایک پھیرے میں بمشکل 300 سے 400 روپیکماتے ہیں اور یہ کمائی بھی روز نہیں ہوتی۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایل ایچ ڈی پی اقبال حیدر نے بتایا پاکستان کے آخری گاوں شیخ کریو میں کبھی گنا، چاول، گندم اور مرچیں کاشت کی جاتی تھیں۔ 1999 میں آنے والے سائیکلون اے 2 نے اس بستی کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی اوپر سے ماہی گیری کا پیشہ ان لوگوں کے لیے نیا اور اجنبی تھا،یہ لوگ ”بدلتے ہوئے ماہی گیر” تھے، جنہیں نہ تجربہ تھا، نہ وسائل، اپنا پیشہ بدل کے بھی ان کے حالات نہیں بدلے ماہی گیری بھی ان کے لیے کوئی پائیدار حل ثابت نہ ہوئی۔ جس پانی سے یہ لوگ مچھلی پکڑتے ہیں، وہ دراصل لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) کے ذریعے چار اضلاع کا زہریلا، آلودہ پانی ہے جو سمندر میں گرتا ہے۔ اس آلودہ پانی کی مچھلی انسان کے کھانے کے قابل نہیں ہوتی، اور اکثر یہ مچھلی جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

ایل ایچ ڈی پی آپریشنل مینیجر عبداللہ نے بتایا کہ ماضی میں دریائے سندھ کے بہاؤ سے اس علاقے میں تقریباً بارہ جھیلیں بہتی تھیں، جن میں نریڑی جھیل جو رامسر سائیڈ ہے نمایاں تھی۔ ان جھیلوں کے میٹھے پانی سے نہ صرف پینے کی ضروریات پوری ہوتی تھیں بلکہ زراعت بھی بھرپور ہوتی تھی۔ اب یہ زمینیں یا تو سیلاب میں ڈوب جاتی ہیں یا خشک سالی سے تباہ ہو جاتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو کبھی کبھار جھینگے یا کیکڑے دستیاب ہو جاتے ہیں، لیکن وہ ناکافی ہیں۔ سمندری مچھلیاں جو بہتر آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں یہاں سے 100 کلومیٹر دور گہرے پانی میں موجود ہیں، اور گاؤں والوں کے پاس وہاں تک جانے کے لیے نہ کشتیاں ہیں، نہ ایندھن اورنہ تجربہ۔

اب صورتحال یہ ہے کہ اس گاوں کی بنجر ہوتی زمین اپنی تباہی اور بچھڑتے دیار کا نوحہ سنارہی ہے، دھوپ سے تپتی ہوئی اس زمین پر، جہاں ہَوا بھی تھکن کا شکار لگتی ہییہاں کبھی بڑا گاوں تھا جو اب محض 654 افراد کا چھوٹا سا جہاں ہے، مگر یہاں ہر چہرہ اپنی ایک الگ کہانی رکھتا تھا۔ یہاں کے 141 مرد سورج کے ساتھ جاگتے، زندگی کی سختیوں کو کاندھے پر اٹھائے، رزق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس گاوں میں صرف 154 عورتیں ہیں، جن کی آنکھوں میں نہ جانے کتنے خواب دفن تھے، چولہے کی آنچ، پانی کی تلاش، اور بچوں کے نخرے سمیٹتے سمیٹتے تھک کر بھی نہیں تھکتی ہیں۔ شیخ کریو میں معصوم۔

آنکھوں والے 359 بچے، ننگے پاؤں خاک میں دوڑتے، وہ بچے جنہیں ابھی دنیا کو جاننے کا شوق ہے، مگر علم کی روشنی ان سے میلوں دور ہے۔ شیخ کریو میں اسکول نہیں ہے۔ اگر کسی ماں کا دل چاہتا کہ اس کا بچہ کچھ بنے، تو اسے تین کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹے قدم، دھوپ بھری راہیں، اور پھر بھی منزل بے یقینی کا شکار ہے۔ اگر بات کی جائے صحت کی وہ تو گویا خواب جیسی شے ہے۔ جب کوئی بیمار پڑتا تو امید کی آخری کرن بدین کے سول ہسپتال کی طرف لپکتی ہے جو یہاں سے 46 کلومیٹر دور ہے۔ مگر اس فاصلے کو طے کرنا گویا ایک پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہے،نہ سواری، نہ سہارا، بس صبر کا دامن ہے جو اکثر چھوٹ جاتا ہے۔

نسیمہ یہیں کی رہائشی ہیں ان کے چار بچے ہیں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر پریشان ہیں۔ ”نہ اسکول ہے، نہ اسپتال، اور نہ ہی کوئی امید۔” نسیمہ کو بیماری اب آزمائش نہیں لگتی بلکہ مرجانا نجات کا راستہ لگتا ہے۔ کیونکہ یہاں تقریبا 20 فیصد بچے گندہ پانی پینے سے بیمار ہوکر مرجاتے ہیں۔ نسیمہ نے بتایا کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتی ہوں مگر نہیں بھیج سکتی،میں انہیں صحت مند زندگی دینا چاہتی ہوں نہیں دے سکتی،یہاں خواتین کے لئے کوئی میٹرنٹی کی سہولت نہیں بدین کے سول ہسپتال جاتے جاتے اکثر حاملہ عورتیں مرجاتی ہیں۔

پینے کے صاف پانی سے محروم اس گاوں کے مکینوں نے بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے بڑے تالاب بنائے ہوئے ہیں ان تالابوں کا پانی انسان اور جانوروں کی پیاس بھی بجھاتا ہے مگر یہ پانی گندہ ہونے کیسبب بیماریاں پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس علاقہ میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی تقریبا بیس سال سے حکومت کررہی ہے، ایم پی اے تاج محمد ملاح صرف ووٹ لینے آتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارا مرنا جینا سب سے غافل ہوجاتے ہیں۔

شیخ کریو کی کہانی صرف ایک گاؤں کی نہیں، بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی، حکومتی غفلت اور معاشی ناانصافی کی علامت بن چکی ہے۔ یہ عالمی برادری، حکومتوں، اور ترقیاتی اداروں کے لیے ایک فوری پکار ہے کہ وہ اس علاقے کی انسانی اور ماحولیاتی بقا کے لیے اقدامات کریں۔

Leave a Comment